Al-Quran-al-Kareem - Al-Qasas : 4
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَهْلَهَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآئِفَةً مِّنْهُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ
اِنَّ : بیشک فِرْعَوْنَ : فرعون عَلَا : سرکشی کر رہا تھا فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں وَجَعَلَ : اور اس نے کردیا اَهْلَهَا : اس کے باشندے شِيَعًا : الگ الگ گروہ يَّسْتَضْعِفُ : کمزور کر رکھا تھا طَآئِفَةً : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان میں سے يُذَ بِّحُ : ذبح کرتا تھا اَبْنَآءَهُمْ : ان کے بیٹوں کو وَيَسْتَحْيٖ : اور زندہ چھوڑ دیتا تھا نِسَآءَهُمْ : ان کی عورتوں کو اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا مِنَ : سے الْمُفْسِدِيْنَ : مفسد (جمع)
بیشک فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے رہنے والوں کو کئی گروہ بنادیا، جن میں سے ایک گروہ کو وہ نہایت کمزور کر رہا تھا، ان کے بیٹوں کو بری طرح ذبح کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔ بلاشبہ وہ فساد کرنے والوں سے تھا۔
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ : ”الْاَرْضِ“ سے مراد سرزمین مصر ہے، جس کا قرینہ فرعون کا ذکر ہے، کیونکہ اس کی حکومت صرف مصر میں تھی۔ جو لوگ اسے پوری زمین کا بادشاہ سمجھتے ہیں ان کی بات درست نہیں، کیونکہ ہجرت کے بعد مصر کے قریب ہی مدین پہنچنے پر موسیٰ ؑ اس کی گرفت سے آزاد تھے۔ ”عَلَا“ کا لفظی معنی ہے ”اس نے سر اٹھایا، اونچا بن گیا“ یعنی اپنے اصل مقام بندگی سے اونچا ہو کر خدائی کا دعویٰ کر بیٹھا اور اپنی حقیقت کو بھول گیا۔ ”فِي الْاَرْضِ“ کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ بلندی اور کبریائی تو اس ذات کا لباس ہے جو عرش پر بلند ہے، زمین پر رہنے والے کا حق تو عرش والے کے سامنے پستی اور عاجزی ہے، نہ کہ سرکشی کرتے ہوئے اللہ کے بندوں کو ذلیل و خوار کرنا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا۔ وَجَعَلَ اَهْلَهَا شِيَعًا : یعنی اس نے سر زمین مصر کے باشندوں کو مختلف طبقوں میں تقسیم کردیا تھا۔ واضح رہے کہ فرعون کے زمانے کی تہذیب اور ان کے عقائد بہت حد تک ہندوؤں کی تہذیب اور عقائد سے ملتے جلتے ہیں۔ ہندو بھی چار طبقوں میں تقسیم ہیں، برہمن، کھتری، ویش اور شودر۔ جن میں برہمنوں کو سب پر بالادست رکھا گیا ہے اور شودر کو انسانیت کی حد سے بھی نیچے گرا دیا گیا ہے۔ مصری تہذیب بھی بادشاہ کی خدائی کے ساتھ گائے کی پجاری تھی، ہندوؤں کا بھی یہی حال ہے۔ فرعون مصر نے بھی مصر کے رہنے والوں کو مختلف گروہوں میں بانٹ دیا تھا اور ان سب کو آپس میں دست و گریبان کر رکھا تھا اور مختلف قسم کی مراعات دے کر یا ان پر ظلم و ستم کر کے انھیں اتنا بےوقعت اور بےبس بنا رکھا تھا کہ وہ کسی بات میں اس سے اختلاف کی جرأت نہیں کرسکتے تھے، حتیٰ کہ انھوں نے اس کے رب اعلیٰ ہونے کے دعوے کو بھی مان لیا۔ (دیکھیے زخرف : 51 تا 54) آج کل بھی ملکوں اور قوموں کو محکوم رکھنے کے لیے بڑی طاقتوں کا یہی طریقہ ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَةً مِّنْهُمْ : ”أَضْعَفَ یُضْعِفُ“ (افعال) کا معنی کمزور کرنا ہے اور استفعال میں حروف کے اضافے کی وجہ سے معنی میں اضافہ ہوگیا، یعنی وہ ان میں سے ایک گروہ کو بہت زیادہ ہی کمزور کر رہا تھا۔ مراد اس سے بنی اسرائیل ہیں، جو یوسف ؑ کے زمانے میں مصر آئے تھے اور مدت تک نہایت شان و شوکت اور عزت و احترام کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے، پھر اللہ کی نافرمانی اور اپنے اعمال بد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مصر کے اصل باشندوں کو جو قبطی تھے، ان پر مسلط کردیا اور اس فرعون نے تو انھیں کمزور اور بےبس کرنے کی انتہا کردی۔ اس نے ایسا بندوبست کیا کہ قبطی آقا بن کر رہیں اور بنی اسرائیل غلام اور خدمت گار بن کر۔ چناچہ مشقت کا ہر کام زبردستی ان سے لیا جاتا، مثلاً کھیتی باڑی، عمارتیں بنانے اور نہریں وغیرہ کھودنے کا کام اور گھروں میں خدمت کا کام ان کی عورتوں سے لیا جاتا۔ اس کے علاوہ لڑکوں کو ذبح کرکے عورتوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے زندہ رکھا جاتا۔ يُذَ بِّحُ اَبْنَاۗءَهُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَهُمْ : اس حکم کی وجہ اور ذبح کی کیفیت کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (49)۔ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ : ”إِنَّ“ عموماً اپنے سے پہلے والے کلام کی علت بیان کرنے کے لیے آتا ہے، یعنی اس کے اس ظلم اور سرکشی کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کا کام ہی فساد اور جن کی پہچان ہی مفسدین کے نام سے ہے۔
Top