Al-Quran-al-Kareem - Al-Qasas : 61
اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِیْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ثُمَّ هُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جو وَّعَدْنٰهُ : ہم نے وعدہ کیا اس سے وَعْدًا حَسَنًا : وعدہ اچھا فَهُوَ : پھر وہ لَاقِيْهِ : پانے والا اس کو كَمَنْ : اس کی طرح جسے مَّتَّعْنٰهُ : ہم نے بہرہ مند کیا اسے مَتَاعَ : سامان الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی ثُمَّ : پھر هُوَ : وہ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مِنَ : سے الْمُحْضَرِيْنَ : حاضر کیے جانے والے
تو کیا وہ شخص جسے ہم نے وعدہ دیا اچھا وعدہ، پس وہ اسے ملنے والا ہے، اس شخص کی طرح ہے جسے ہم نے سامان دیا، دنیا کی زندگی کا سامان، پھر قیامت کے دن وہ حاضر کیے جانے والوں سے ہے۔
ۧ اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَـنًا۔۔ : اس آیت میں مومن و کافر کی زندگیوں کا موازنہ کیا گیا ہے اور سوال کی صورت میں سوچنے کی دعوت دی گئی ہے کہ آیا یہ دونوں زندگیاں کسی صورت برابر ہوسکتی ہیں ؟ جب یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتیں تو تم دنیا کے فائدے کے لیے رسول کی پیروی کیوں چھوڑتے ہو ؟ دنیا کی نعمتیں مومن و کافر دونوں کو ملتی ہیں، مگر مومن اللہ تعالیٰ کے حکم کا پابند رہ کر ان سے فائدہ اٹھاتا ہے، جس کی وجہ سے آخرت کی نعمتیں صرف اس کے لیے خاص ہوجاتی ہیں۔ (دیکھیے اعراف : 32) اور ایمان اور عمل صالح والوں سے اللہ تعالیٰ کا یہی وعدۂ حسنہ ہے، جو ہر حال میں مومن کو مل کر رہے گا، کیونکہ اللہ کا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہوتا، جیسا کہ فرمایا : (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ) [ النحل : 97 ] ”جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقیناً ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔“ اس کے مقابلے میں کافر ہے، مومن کے متعلق جو فرمایا کہ وہ ہمارے اچھے وعدے کو ملنے والا ہے، تو یہ اشارہ ہے کہ کافر کو بھی شیطان اور اس کے بنائے ہوئے شریک وعدے دلاتے رہتے ہیں، مگر ان کے دلائے ہوئے وعدے اسے کبھی حاصل نہیں ہوں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة ابراہیم میں ذکر فرمایا ہے کہ قیامت کے دن شیطان کہے گا : (اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ) [ إبراہیم : 22 ] ”بیشک اللہ نے تم سے وعدہ کیا، سچا وعدہ اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو میں نے تم سے خلاف ورزی کی۔“ کافر کو دنیا کی زندگی کا کچھ سامان دیا گیا، ملنا اسے بھی اتنا ہی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے، مگر اس نے اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کے بجائے اپنی خواہش نفس کے مطابق اس سے فائدہ اٹھایا، جس کے نتیجے میں وہ ان لوگوں میں شامل ہونے والا ہے جو قیامت کے دن حاضر کیے جانے والے ہیں۔ قرآن کی اصطلاح میں ”الْمُحْضَرِيْنَ“ (حاضر کیے جانے والے) کا لفظ عذاب میں حاضر کیے جانے والوں کے متعلق ہی استعمال ہوا ہے۔ دیکھیے سورة صافات (57 اور 127) اس لفظ میں بھی یہ مفہوم موجود ہے، کیونکہ حاضر اسی کو کیا جاتا ہے جو حاضر نہ ہونا چاہے، جنت میں تو ہر شخص شوق سے جائے گا۔ ابن کثیر ؓ نے فرمایا : ”تو کیا وہ شخص جو مومن ہے، اس وعدے کو سچا جاننے والا ہے جو اللہ نے اس کے صالح اعمال پر اس سے ثواب کی صورت میں کیا ہے، جو لا محالہ اسے ملنے والا ہے، اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو کافر ہے، اللہ کی ملاقات اور اس کے وعدہ و وعید کو جھٹلانے والا ہے۔ سو اسے دنیا کی زندگی میں تھوڑے سے دن کچھ سامان ملنے والا ہے، پھر قیامت کے دن وہ حاضر کیے جانے والوں میں سے ہے۔ مجاہد نے فرمایا، یعنی عذاب دیے جانے والوں میں سے ہے۔“ (ابن کثیر)
Top