Al-Quran-al-Kareem - Al-Qasas : 63
قَالَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَغْوَیْنَا١ۚ اَغْوَیْنٰهُمْ كَمَا غَوَیْنَا١ۚ تَبَرَّاْنَاۤ اِلَیْكَ١٘ مَا كَانُوْۤا اِیَّانَا یَعْبُدُوْنَ
قَالَ : کہیں گے الَّذِيْنَ : وہ جو حَقَّ : ثابت ہوگیا عَلَيْهِمُ : ان پر الْقَوْلُ : حکم (عذاب) رَبَّنَا : اے ہمارے رب هٰٓؤُلَآءِ : یہ ہیں الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اَغْوَيْنَا : ہم نے بہکایا اَغْوَيْنٰهُمْ : ہم نے بہکایا انہیں كَمَا : جیسے غَوَيْنَا : ہم بہکے تَبَرَّاْنَآ : ہم بیزاری کرتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف مَا كَانُوْٓا : وہ نہ تھے اِيَّانَا : صرف ہماری يَعْبُدُوْنَ : بندگی کرتے
وہ لوگ کہیں گے جن پر بات ثابت ہوچکی، اے ہمارے رب ! یہ ہیں وہ لوگ جنھیں ہم نے گمراہ کیا، ہم نے انھیں اسی طرح گمراہ کیا جیسے ہم گمراہ ہوئے، ہم تیرے سامنے بری ہونے کا اعلان کرتے ہیں، یہ ہماری تو عبادت نہیں کرتے تھے۔
قَالَ الَّذِيْنَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ :”بات ثابت ہوچکی“ سے مراد ہے ”عذاب کی بات ثابت ہوچکی“ جیسا کہ فرمایا : (وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ) [ السجدۃ : 13 ] ”اور لیکن میری طرف سے بات پکی ہوچکی کہ یقیناً میں جہنم کو جنوں اور انسانوں، سب سے ضرور بھروں گا۔“ اور ”جن پر عذاب کی بات ثابت ہوچکی“ سے مراد شیاطین یا وہ بڑے بڑے پیشوا، سردار، لیڈر اور پیرفقیر قسم کے لوگ ہیں جن کو لوگوں نے دنیا میں ”اربابا من دون اللہ“ بنا لیا تھا اور جن کی بات کے مقابلے میں وہ اللہ اور اس کے رسولوں کی بات کو رد کردیا کرتے تھے۔ وہ کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تو حلال سمجھتے، حرام کہہ دیتے تو حرام سمجھتے، یہ ان کو اللہ کے سوا رب اور اللہ کے شریک بنانا تھا۔ جن پیشواؤں نے لوگوں کو اپنی بندگی پر لگایا تھا اور جن پر عذاب کا فیصلہ ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے اے ہمارے رب !۔۔ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَغْوَيْنَا۔۔ : یعنی جنھیں اللہ کے شریک بنایا گیا تھا، وہ کہیں گے، اے ہمارے رب ! یہ ہیں وہ لوگ جنھیں ہم نے گمراہ کیا۔ ہم نے انھیں ویسے ہی گمراہ کیا جیسے ہم خود گمراہ ہوئے، یعنی گمراہی کی دعوت دینے والوں کی دعوت پر جس طرح ہم اپنی مرضی سے گمراہ ہوئے اسی طرح ہم نے ان کے سامنے گمراہی پیش کی تو یہ اپنی مرضی سے گمراہ ہوئے، نہ ہم پر کسی نے جبر کیا تھا اور نہ ہم نے ان پر کوئی زبردستی کی۔ مَا كَانُوْٓا اِيَّانَا يَعْبُدُوْنَ : ہم ان کی گمراہی کی ذمہ داری سے بری ہیں۔ اللہ کے سوا جن کی بھی عبادت کی گئی، وہ نیک تھے یا بد، قیامت کے دن اپنی عبادت کرنے والوں سے بری ہوجائیں گے، بلکہ ان کے دشمن ہوں گے۔ دیکھیے سورة مریم (81، 82) ، احقاف (5، 6) ، عنکبوت (25) اور سورة بقرہ (166، 167)۔ : کیونکہ اللہ کے سوا کسی بھی شریک کی پیروی کرنے والے یا اسے پکارنے والے درحقیقت نہ کسی موجود چیز کو پکار رہے ہیں، نہ اس کی پیروی کر رہے ہیں، کیونکہ اللہ کے کسی شریک کا وجود ہے ہی نہیں، وہ محض اپنے خیال اور گمان کی پیروی کر رہے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (ااَلَآ اِنَّ لِلّٰهِ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ ۭ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُرَكَاۗءَ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ) [ یونس : 66 ] ”سن لو ! بیشک اللہ ہی کے لیے ہے جو کوئی آسمانوں میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے اور جو لوگ اللہ کے غیر کو پکارتے ہیں وہ کسی بھی قسم کے شریکوں کی پیروی نہیں کر رہے۔ وہ پیروی نہیں کرتے مگر گمان کی اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔“ اس لیے جنھیں شریک بنایا گیا تھا وہ صاف کہہ دیں گے کہ یہ ہماری پرستش نہیں کرتے تھے، بلکہ محض اپنے گمان کی پرستش کیا کرتے تھے اور ہمارے بندے نہیں بلکہ اپنے نفس کے بندے بنے ہوئے تھے۔ 3 اس آیت میں یہ بات قابل غور ہے کہ سوال تو ان لوگوں سے ہوگا جنھوں نے شریک بنائے تھے، مگر بول وہ اٹھیں گے جنھیں شریک بنایا گیا تھا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جب عام مشرکین سے سوال ہوگا تو پیشوا اور سردار سمجھ لیں گے کہ اب ہماری شامت آنے والی ہے، ہمارے یہ مرید اور پیروکار ضرور اپنی گمراہی کا ذمہ دار ہمیں ٹھہرائیں گے، اس لیے وہ پہلے ہی اپنی صفائی پیش کرنے لگیں گے۔
Top