Al-Quran-al-Kareem - Al-Qasas : 66
فَعَمِیَتْ عَلَیْهِمُ الْاَنْۢبَآءُ یَوْمَئِذٍ فَهُمْ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ
فَعَمِيَتْ : پس نہ سوجھے گی عَلَيْهِمُ : ان کو الْاَنْۢبَآءُ : خبریں (باتیں) يَوْمَئِذٍ : اس دن فَهُمْ : پس وہ لَا يَتَسَآءَلُوْنَ : آپس میں سوال نہ کریں گے
تو اس دن ان پر تمام خبریں تاریک ہوجائیں گی، سو وہ ایک دوسرے سے (بھی) نہیں پوچھیں گے۔
فَعَمِيَتْ عَلَيْهِمُ الْاَنْۢبَاۗءُ يَوْمَىِٕذٍ۔۔ :”عَمِيَ یَعْمٰی عَمًی“ (ع) کا معنی اندھا ہونا ہے۔ کہنا یہ تھا کہ ”فَعَمُوْا عَنِ الْأَنْبَاءِ یَوْمَءِذٍ“ کہ ”وہ اس دن خبروں سے اندھے ہوجائیں گے۔“ مبالغے کے لیے الٹ فرمایا کہ اس دن ان پر تمام خبریں تاریک ہوجائیں گی، یعنی یہ بات ان کی سمجھ ہی میں نہیں آئے گی کہ وہ اس سوال کا کیا جواب دیں، نہ ہی یہ ہو سکے گا کہ ایک دوسرے سے پوچھ کر اس سوال کا جواب دے دیں۔ اس وقت کی دہشت ہی اتنی زیادہ ہوگی کہ وہ ایک دوسرے سے کوئی بات پوچھ ہی نہیں سکیں گے۔ 3 اس سوال سے پہلے قبر میں منکر نکیر کے سوالات کے جواب میں بھی کافر اور منافق یہی کہیں گے : (ھَاہْ ھَاہْ لَا أَدْرِيْ) ”ہائے ہائے، میں نہیں جانتا۔“ [ دیکھیے أبوداوٗد، السنۃ، باب المسألۃ في القبر۔۔ : 4753، عن البراء بن عازب۔ ، و صححہ الألباني ] یہ بھی خبروں کے تاریک ہوجانے ہی کا نتیجہ ہوگا۔ یہاں فرمایا : (فَهُمْ لَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ) ”وہ ایک دوسرے سے (بھی) نہیں پوچھیں گے۔“ دوسری جگہ فرمایا : (وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ) [ الصافات : 27 ] ”اور ان کے بعض بعض کی طرف متوجہ ہوں گے، ایک دوسرے سے سوال کریں گے۔“ اسی طرح یہاں فرمایا : ”وہ کچھ جواب نہ دیں سکیں گے۔“ دوسری جگہ فرمایا، وہ کہیں گے : (وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ) [ الأنعام : 23 ] ”اللہ کی قسم ! جو ہمارا رب ہے، ہم شریک بنانے والے نہ تھے۔“ اس ظاہری اختلاف کی حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا دن بہت لمبا ہے۔ اس میں کفار پر کئی مرحلے آئیں گے، جن میں کبھی وہ خاموش رہیں گے، کبھی جرم سے انکار کریں گے، کبھی اقرار کریں گے اور کہیں گے ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی۔ کبھی ایک دوسرے سے سوال کریں گے اور کبھی ایک دوسرے سے سوال نہیں کرسکیں گے، اس لیے مقامات مختلف ہونے کی وجہ سے ان آیات میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں ہے۔ مزید دیکھیے سورة انعام (22، 23)۔
Top