Al-Quran-al-Kareem - Al-Ankaboot : 38
وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ قَدْ تَّبَیَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ١۫ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ كَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَۙ
وَعَادًا : اور عاد وَّثَمُوْدَا : اور ثمود وَقَدْ : اور تحقیق تَّبَيَّنَ : واضح ہوگئے ہیں لَكُمْ : تم پر مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ : ان کے رہنے کے مقامات وَزَيَّنَ : اور بھلے کر دکھائے لَهُمُ : ان کے لیے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَعْمَالَهُمْ : ان کے اعمال فَصَدَّهُمْ : پھر روک دیا انہیں عَنِ : سے السَّبِيْلِ : راہ وَكَانُوْا : حالانکہ وہ تھے مُسْتَبْصِرِيْنَ : سمجھ بوجھ والے
اور عاد اور ثمود کو (ہم نے ہلاک کیا) اور یقینا ان کے رہنے کی کچھ جگہیں تمہارے سامنے آچکی ہیں اور شیطان نے ان کے لیے ان کے کام مزین کردیے، پس انھیں اصل راستے سے روک دیا، حالانکہ وہ بہت سمجھدار تھے۔
وَعَادًا وَّثَمُــوْدَا۟ وَقَدْ تَّبَيَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ۔۔ :”من“ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے کہ ”ان کے رہنے کی کچھ جگہیں تمہارے سامنے آچکی ہیں“ ظاہر ہے کہ ان کے شہر اور آبادیاں تو اللہ کے عذاب سے تباہ و برباد ہوچکی تھیں، مگر ان کے آثار اور بچے کھچے کچھ گھر عبرت کے سامان کے طور پر باقی تھے۔ عاد اور ثمود دونوں قومیں جن علاقوں میں آباد تھیں وہ معروف شاہراہوں پر واقع تھے اور عرب کے تمام لوگ ان سے واقف تھے۔ جنوبی عرب کا پورا علاقہ جو اب احقاف، یمن اور حضر موت کے نام سے معروف ہے، قوم عاد کا مسکن تھا اور حجاز کے شمالی حصہ میں رابغ سے عقبہ تک اور مدینہ و خیبر سے تیماء اور تبوک تک کا سارا علاقہ آج بھی ثمود کے آثار سے بھرا ہوا ہے۔ جس زمانے میں قرآن اترا ہے یقیناً اس وقت وہ آثار اور زیادہ نمایاں ہوں گے۔ وَكَانُوْا مُسْتَبْصِرِيْنَ : ”أَبْصَرَ یُبْصِرُ“ دیکھنا، صاحب بصیرت ہونا۔ ”اِسْتَبْصَرَ یَسْتَبْصِرُ“ میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے معنی میں مبالغہ پیدا ہوگیا، یعنی وہ بہت بصیرت والے، نہایت سمجھ دار تھے، مگر ان کی ساری بصیرت اور ساری سمجھ داری دنیا تک محدود تھی۔ دنیا کے کاموں میں بڑے ہوشیار اور فنکار تھے، اپنے دور کے نہایت ترقی یافتہ اور طاقت ور لوگ تھے۔ لیکن شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے ایسے خوش نما بنائے کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق ان کی مت مار دی اور آخرت سے مکمل طور پر بیگانہ کردیا۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اکثر لوگوں کا یہی حال بیان فرمایا ہے : (وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ښ وَهُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ) [ الروم : 6، 7 ] ”اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ وہ دنیا کی زندگی میں سے ظاہر کو جانتے ہیں اور وہ آخرت سے، وہی غافل ہیں۔“ ان آیات کی تفسیر پر بھی نظر ڈال لیں۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ وہ بہت سمجھ دار تھے، بڑے صاحب بصیرت تھے، انھیں خوب علم تھا کہ پیغمبر جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ حق ہے، مگر وہ اپنی لذتوں میں ایسے غرق تھے اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال ایسے مزین کردیے تھے کہ وہ جاننے بوجھنے کے باوجود اپنی لذتیں چھوڑ کر راہ حق پر آنے کے لیے تیار نہیں تھے، عناد اور سرکشی کی بنا پر انبیاء کی مخالفت کرتے تھے۔ یہی حال اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کا بیان فرمایا ہے کہ موسیٰ ؑ جب معجزات لے کر ان کے پاس آئے تو : (وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ) [ النمل : 14 ] ”اور انھوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان کا انکار کردیا، حالانکہ ان کے دل ان کا اچھی طرح یقین کرچکے تھے، پس دیکھ فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔“ دونوں تفسیریں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ 3 پہلے پیغمبروں اور ان کی امتوں کے ان واقعات میں کفار قریش کے لیے تنبیہ اور عبرت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جھٹلانے کی صورت میں ان کا انجام بھی پہلے جھٹلانے والوں جیسا ہوگا اور رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے لیے تسلی اور حوصلہ ہے کہ آزمائشوں اور مشکلات کے بعد آخر انھی کو کامیابی حاصل ہوگی۔
Top