Al-Quran-al-Kareem - Al-Ankaboot : 43
وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ١ۚ وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ
وَتِلْكَ : اور یہ الْاَمْثَالُ : مثالیں نَضْرِبُهَا : ہم وہ بیان کرتے ہیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَمَا يَعْقِلُهَآ : اور نہیں سمجھتے نہیں اِلَّا : سوا الْعٰلِمُوْنَ : جاننے والے
اور یہ مثالیں ہیں جو ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں اور انھیں صرف جاننے والے ہی سمجھتے ہیں۔
وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا للنَّاسِ : یہ کفار کے اس سوال کا جواب ہے کہ مکڑی، مچھر اور مکھی وغیرہ جیسی حقیر چیزوں کی مثال کی کیا ضرورت تھی ؟ جیسا کہ فرمایا : (وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَيَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَاد اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًا) [ البقرۃ : 26 ]”اور رہے وہ جنھوں نے کفر کیا تو وہ کہتے ہیں اللہ نے اس کے ساتھ مثال دینے سے کیا ارادہ کیا ؟“ جواب دیا کہ مثال کا مقصد بات کو سمجھانا ہوتا ہے، کیونکہ مثال سے بات اچھی طرح ذہن نشین ہوجاتی ہے، مگر ان مثالوں کو صرف علم والے سمجھتے ہیں۔ وَمَا يَعْقِلُهَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ : ”الْعٰلِمُوْنَ“ (جاننے والوں) سے مراد ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور زمین و آسمان میں پھیلی ہوئی بیشمار نشانیوں پر سوچ بچار کرتے ہیں، ایسے لوگ ہی راسخ فی العلم کہلانے کے حق دار ہیں۔
Top