Al-Quran-al-Kareem - Al-Ankaboot : 48
وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ
وَمَا : اور نہ كُنْتَ تَتْلُوْا : آپ پڑھتے تھے مِنْ قَبْلِهٖ : اس سے قبل مِنْ كِتٰبٍ : کوئی کتاب وَّلَا تَخُطُّهٗ : اور نہ اسے لکھتے تھے بِيَمِيْنِكَ : اپنے دائیں ہاتھ سے اِذًا : اس (صورت) میں لَّارْتَابَ : البتہ شک کرتے الْمُبْطِلُوْنَ : حق ناشناس
اور تو اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا، اس وقت باطل والے لوگ ضرور شک کرتے۔
وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ۔۔ : یعنی اے نبی ! وحی کے ذریعے سے آنے والی جس کتاب کی تلاوت کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اس کے نزول سے پہلے آپ اپنی قوم میں چالیس سال کا عرصہ رہے ہیں، نہ آپ کسی بھی طرح کی لکھی ہوئی کوئی چیز پڑھتے تھے نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے، بلکہ محض امیّ تھے۔ وہ سب لوگ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں جن میں آپ کی زندگی گزری، بلکہ بہت تھوڑے آدمی چھوڑ کر ان کا اپنا حال بھی یہی ہے کہ وہ امیّ ہیں، جیسا کہ فرمایا : (هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا) [ الجمعۃ : 2 ] ”وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا۔“ اور پہلی کتابوں میں بھی آپ کی یہی صفت مذکور ہے، فرمایا : (اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ) [ الأعراف : 157 ] ”وہ جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں، جو امیّ نبی ہے، جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔“ اس آیت میں نبی ﷺ کے امیّ ہونے کو آپ کے دعوئ نبوت میں سچا ہونے کی دلیل ٹھہرایا ہے۔ دیکھیے سورة قصص (86) اور یونس (16) ابن کثیر فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کا ہمیشہ (وفات تک) یہی حال رہا، آپ نہ پڑھ سکتے تھے نہ ہی ایک سطر یا ایک حرف اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے، بلکہ آپ کے کئی کاتب تھے جو وحی اور مختلف علاقوں کی طرف خطوط وغیرہ لکھتے تھے۔ بعض لوگوں نے ”من قبلہ“ کے لفظ سے دلیل لی ہے کہ نبوت سے پہلے تو آپ فی الواقع لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، مگر نبوت کے بعد آپ ﷺ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ ان حضرات نے عقیدت میں غلو کی وجہ سے یہ بات کہی ہے، یہ نہیں سوچا کہ ایک شخص ان پڑھ ہو کر سارے جہاں کا استاذ بن جائے، یہ زیادہ حیران کن بات اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے یا یہ کہ کوئی عالم فاضل اور پڑھا لکھا شخص کوئی کتاب تصنیف کر کے لے آئے۔ آپ ﷺ کے آخری وقت تک امیّ ہونے کی دلیل صلح حدیبیہ کے معاہدے کا واقعہ ہے، جس کا صلح نامہ علی بن ابی طالب ؓ نے تحریر کیا تھا۔ براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں : (فَکَتَبَ ہٰذَا مَا قَاضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَقَالُوْا لَوْ عَلِمْنَا أَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ لَمْ نَمْنَعْکَ وَلَبَایَعْنَاکَ ، وَلٰکِنِ اکْتُبْ ہٰذَا مَا قَاضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ ، فَقَالَ أَنَا وَاللّٰہِ ! مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ وَأَنَا وَاللّٰہِ ! رَسُوْلُ اللّٰہِ قَالَ وَکَانَ لاَ یَکْتُبُ قَالَ فَقَالَ لِعَلِيٍّ امْحُ رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ عَلِيٌّ وَاللّٰہِ ! لاَ أَمْحَاہُ أَبَدًا قَالَ فَأَرِنِیْہِ قَالَ فَأَرَاہُ إِیَّاہُ ، فَمَحَاہ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہِ) [ بخاري، الجزیۃ، باب المصالحۃ علی ثلاثۃ أیام۔۔ : 3184 ] ”علی ؓ نے لکھا : ”یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد رسول اللہ نے معاہدہ کیا ہے۔“ انھوں نے کہا : ”اگر ہم جانتے ہوتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو (خانہ کعبہ سے) نہ روکتے، بلکہ ہم آپ کی بیعت کرلیتے، لیکن لکھو کہ یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے معاہدہ کیا ہے۔“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اللہ کی قسم ! میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ کی قسم ! میں رسول اللہ ہوں۔“ براء نے فرمایا : ”اور آپ لکھتے نہیں تھے۔“ تو آپ ﷺ نے علی ؓ سے کہا : ”رسول اللہ (کا لفظ) مٹا دو۔“ علی ؓ نے کہا : ”اللہ کی قسم ! میں اسے کبھی نہیں مٹاؤں گا۔“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”پھر وہ مجھے دکھاؤ۔“ انھوں نے وہ لفظ آپ کو دکھایا تو نبی ﷺ نے اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دیا۔“ یہ واقعہ ذوالقعدہ چھ ہجری کا ہے جس کے بعد رسول اللہ ﷺ چار سال اور چند ماہ زندہ رہے، اس میں صراحت ہے ”وَکَانَ لَا یَکْتُبُ“ (آپ ﷺ لکھتے نہیں تھے) اب وہ کون سی روایت ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ اس واقعہ کے بعد آپ ﷺ نے لکھنا سیکھ لیا تھا ؟ حافظ ابن کثیر نے فرمایا کہ بخاری کی بعض روایات میں جو آیا ہے : (ثُمَّ أَخَذَ فَکَتَبَ) (پھر آپ ﷺ نے پکڑا اور لکھا) یہ دوسری روایت پر محمول ہے جس میں ہے : (ثُمَّ أَمَرَ فَکَتَبَ) ”پھر آپ ﷺ نے حکم دیا تو انھوں نے لکھا۔“ ابن کثیر فرماتے ہیں، بعض لوگوں نے جو حدیث بیان کی ہے : (إِنَّہُ لَمْ یَمُتْ حَتّٰی تَعَلَّمَ الْکِتَابَۃَ) ”کہ آپ فوت نہیں ہوئے حتیٰ کہ آپ نے لکھنا سیکھ لیا“ تو یہ روایت ضعیف ہے، اس کی کوئی اصل نہیں۔ خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے امیّ ہونے کا اعتراف فرمایا ہے، ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : (إِنَّا أُمَّۃٌ أُمِّیَّۃٌ، لاَ نَکْتُبُ وَ لاَ نَحْسُبُ ، الشَّہْرُ ہٰکَذَا وَ ہٰکَذَا یَعْنِيْ مَرَّۃً تِسْعَۃً وَعِشْرِیْنَ ، وَمَرَّۃً ثَلاَثِیْنَ) [ بخاري، الصوم، باب قول النبي ﷺ لا نکتب و لا نحسب : 1913 ] ”ہم اُمّی لوگ ہیں، لکھنا اور حساب کرنا نہیں جانتے، قمری مہینا اتنا ہوتا ہے اور اتنا بھی۔“ یعنی کبھی انتیس (29) دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس (30) دن کا۔“ 3 یہ اللہ کی شان ہے کہ ایک طرف آپ ﷺ کو وہ کتاب عطا فرمائی جس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثل کل عالم بنانے سے عاجز ہے، تو دوسری طرف آپ ﷺ کو نہ پڑھنا سکھایا نہ لکھنا۔ پھر بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ عالم الغیب تھے اور ”مَا کَانَ وَ مَا یَکُوْنُ“ (جو ہوچکا اور جو ہوگا) سب جانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے۔ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ : یعنی اگر آپ پڑھتے ہوتے یا ہاتھ سے لکھتے ہوتے تو باطل پرستوں کے لیے شک کا کوئی موقع ہوسکتا تھا کہ آپ نے اگلی کتابیں پڑھ کر یہ باتیں لکھ لی ہیں، انھی کو آہستہ آہستہ اپنے الفاظ میں سنا رہے ہیں۔ گو اس وقت بھی یہ کہنا غلط ہوتا، کیونکہ کتنا بھی پڑھا لکھا انسان ہو بلکہ دنیا کے تمام پڑھے لکھے انسان مل کر اور کل مخلوق کو ساتھ ملاکر بھی اس بےمثال کتاب کی ایک سورت جیسی سورت پیش نہیں کرسکتے، پھر بھی اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے تو جھوٹے لوگوں کو بات بنانے کا موقع مل سکتا تھا۔ جب آپ کا اَن پڑھ ہونا سب کے ہاں مسلّم ہے تو اس شبہ کا موقع بھی نہ رہا۔ 3 آپ کے اُمّی ہونے کے باوجود کفار نے یہ بہتان جڑ دیا : (وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا) [ الفرقان : 5 ] ”اور انھوں نے کہا یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو اس نے لکھوا لی ہیں، سو وہ پہلے پہر اور پچھلے پہر اس پر پڑھی جاتی ہیں۔“ اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے تو باطل پرستوں کے شکوک و شبہات کا اور بہتان باندھنے کا کیا حال ہوتا۔ 3 یہاں ایک سوال ہے کہ ”ولا تخطه“ (اور نہ تو اسے لکھتا تھا) کے الفاظ ہی کافی تھے، پھر ”بیمینک“ (اپنے دائیں ہاتھ سے) فرمانے میں کیا حکمت ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ بعض اوقات لکھوانے کو بھی لکھنا کہہ دیا جاتا ہے، مثلاً بعض اوقات خط لکھوا کر بھیجنے والا کہہ دیتا ہے، میں نے فلاں کو خط لکھا ہے۔ اس امکان کو ختم کرنے کے لیے فرمایا : (وَّلَا تَخُــطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ) ”اور نہ تو اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا۔“
Top