Al-Quran-al-Kareem - Al-Ankaboot : 64
وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ١ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں هٰذِهِ : یہ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ : دنیا کی زندگی اِلَّا لَهْوٌ : سوائے کھیل وَّلَعِبٌ ۭ : اور کود وَاِنَّ : اور بیشک الدَّارَ الْاٰخِرَةَ : آخرت کا گھر لَھِىَ : البتہ وہی الْحَيَوَانُ ۘ : زندگی لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہوتے
اور دنیا کی یہ زندگی نہیں ہے مگر ایک دل لگی اور کھیل، اور بیشک آخری گھر، یقینا وہی اصل زندگی ہے، اگر وہ جانتے ہوتے۔
وَمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ۔۔ : ”الدنیا“ ”اَلْأَدْنٰی“ کی مؤنث ہے، قریب، گھٹیا۔ اس کے مقابلے میں ”الاخرۃ“ ہے۔ ”لھو“ وہ چیز جو ضروری کاموں سے دل کو غافل کر دے، یعنی دل لگی، جیسے گانا بجانا وغیرہ، جیسا کہ فرمایا : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ) [ لقمان : 6 ] ”اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو غافل کرنے والی بات خریدتا ہے، تاکہ جانے بغیر اللہ کے راستے سے گمراہ کرے۔“ ”لَعِبٌ“ ”کھیل۔“ اس جملے میں آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کا بےوقعت ہونا چار طرح سے بیان ہوا ہے، سب سے پہلے ”ھذه“ کا لفظ حقارت کے اظہار کے لیے ہے، یعنی ”یہ“ دنیا کی زندگی۔ جیسا کہ فرعون نے موسیٰ ؑ کی تحقیر کے لیے کہا تھا : (اَمْ اَنَا خَيْرٌ مِّنْ ھٰذَا الَّذِيْ هُوَ مَهِيْنٌ) [ الزخرف : 52 ] ”بلکہ میں اس شخص سے بہتر ہوں، وہ جو حقیر ہے۔“ دوسرا ”الدنیا“ کا لفظ دنایت اور گھٹیا پن پر دلالت کر رہا ہے، تیسرا ”لہو“ (دل لگی) اور چوتھا ”لعب“ (کھیل) ، یعنی اس حقیر دنیا کی زندگی کی حقیقت دل لگی اور کھیل کے سوا اور کچھ نہیں، جس طرح کوئی شخص کچھ وقت کے لیے گا بجا کر اور کھیل کود کر گھر چلا جائے۔ یہاں کوئی بادشاہ ہے یا وزیر، تاجر ہے یا صنعت کار، مالک ہے یا مزدور، اگر کسی بھی ایسے کام میں مصروف ہے جو قیامت کے دن کے لیے کار آمد نہیں تو سمجھ لیجیے وہ محض دل لگی اور کھیل تماشے میں مصروف ہے اور اس کے تمام ساتھی اس کھیل تماشے کا حصہ ہیں۔ اس تماشے میں کوئی بادشاہ ہے، کوئی وزیر ہے اور کوئی کچھ اور۔ انھیں عیش و عشرت کے جتنے سامان میسر ہیں، عورتیں ہوں یا بیٹے، سونے چاندی کے خزانے ہوں یا اعلیٰ نسل کے گھوڑے، ہر قسم کے چوپائے ہوں یا کھیتیاں اور باغات، سب اس کھیل کے کھلونے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب یہ کھیل ختم ہوجاتا ہے اور کھیل کا ہر کردار اسی بےسروسامانی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے جس کے ساتھ وہ یہاں آیا تھا۔ ہوسکتا ہے وہ ان کھلونوں کے ساتھ ساٹھ یا ستر یا سو برس دل بہلا لے، آخر کار اسے یہ سب کچھ چھوڑ کر موت کے دروازے سے گزر کر اس جہاں میں پہنچنا ہے جہاں کی زندگی دائمی اور ابدی ہے۔ بڑا ہی بدنصیب ہے وہ شخص جو اس کھیل میں مصروف رہے اور اس دائمی زندگی کی فکر نہ کرے۔ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ ۘ : ”الدَّارَ“ موصوف ہے اور ”ۭ الْاٰخِرَةَ“ اس کی صفت، آخری گھر۔ یہاں ایک لفظ محذوف ہے، یعنی ”إِنَّ حَیَاۃَ الدَّارِ الْآخِرَۃِ لَھِيَ الْحَیَوَانُ“ ”الْحَیَوَانُ“ مصدر ہے، جس طرح ”اَلْحَیَاۃُ“ مصدر ہے۔ ”الْحَیَوَانُ“ میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے ”زندگی“ کے مفہوم میں مبالغہ پایا جاتا ہے، پھر ”الْحَیَوَانُ“ پر ”الف لام“ کمال کا مفہوم ادا کر رہا ہے، اس لیے ”الْحَیَوَانُ“ کا ترجمہ ”اصل زندگی“ کیا گیا ہے۔ یعنی یقیناً آخری گھر کی زندگی ہی اصل زندگی ہے، جسے کبھی زوال نہیں، اس لیے آدمی کو چاہیے کہ یہاں کی چند روزہ زندگی سے زیادہ آخری زندگی کی فکر کرے، کیونکہ وہ اصل اور دائمی ہے۔ دنیا کے کھیل تماشے میں غرق ہو کر عاقبت کو بھول نہ بیٹھے، بلکہ یہاں رہ کر وہاں کی تیاری کرے۔ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : اگر وہ جانتے ہوتے تو فانی کو باقی پر ترجیح نہ دیتے۔ رسول اللہ ﷺ نے دنیا کی قدر و قیمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : (لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ مَا سَقٰی کَافِرًا مِنْہَا شَرْبَۃَ مَاءٍ) [ ترمذي، الزھد، باب ما جاء في ھوان الدنیا علی اللہ عزوجل : 2320، عن سھل بن سعد ؓ ، وقال الترمذي و الألباني صحیح ] ”اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر ہوتی، تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو اس میں سے پانی کا ایک گھونٹ نہ پلاتا۔“
Top