Al-Quran-al-Kareem - Aal-i-Imraan : 116
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : کفر کیا لَنْ تُغْنِىَ : ہرگز کام نہ آئے گا عَنْھُمْ : ان سے (کے) اَمْوَالُھُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُھُمْ : ان کی اولاد مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے ( آگے) شَيْئًا : کچھ وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ اَصْحٰبُ النَّارِ : آگ (دوزخ) والے ھُمْ : وہ فِيْھَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
بیشک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان کے مال انھیں اللہ سے (بچانے میں) ہرگز کچھ بھی کام نہ آئیں گے اور نہ ان کی اولاد اور یہ لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
لَنْ تُغْنِىَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ۔۔ : یعنی جو مال خرچ کیا اور اللہ کی رضا پر نہ دیا، آخرت میں دیا نہ دیا برابر ہے۔ (موضح) عام طور پر مصیبت کے وقت اولاد انسان کے کام آتی ہے، مگر اس وقت کفار کی اولاد ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔ اوپر کی آیات میں مومن اور متقی کے نیک اعمال کا انجام ذکر فرمایا کہ ان کی ادنیٰ سے ادنیٰ نیکی بھی ضائع نہیں ہوگی، بلکہ اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا، اب اس آیت میں کافر کے صدقہ و خیرات اور رفاہی کاموں کو آخرت میں بےفائدہ اور ضائع ہونے کے اعتبار سے ان لوگوں کی کھیتی سے تشبیہ دی ہے، جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، جو کھیتی دیکھنے میں سرسبز و شاداب نظر آئے لیکن درمیانی فاصلہ ختم کریں سخت سرد ہوا چلے اور اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دے۔ یہی حال کفار کے صدقہ و خیرات کا ہے، وہ چونکہ ایمان و اخلاص کی دولت سے محروم ہیں، اس لیے آخرت میں ان کے اعمال تباہ و برباد ہوجائیں گے اور انھیں ان اعمال کا کچھ بھی اجر نہیں ملے گا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة فرقان (23) اور سورة نور (39، 40)۔ ہاں کفار کو دنیا ہی میں ان کے اچھے اعمال کا بدلہ مل جائے گا۔ [ دیکھیے الأحقاف : 20 ] ”صِرٌّ“ شدید ٹھنڈی ہوا جو کھیتوں کو جلا دے۔ واضح رہے کہ قرآن میں عموماً ”رِیْحٌ“ کا لفظ عذاب کے لیے استعمال ہوا ہے اور ”رِیَاحٌ“ جمع کا لفظ رحمت کے لیے۔ (مفردات) میں ریح کا لفظ موافق ہوا کے لیے آیا ہے (وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَةٍ) دوسرے مقامات پر عذاب کی ھود کے لیے آیا ہے۔ وَمَا ظَلَمَھُمُ اللّٰه : یعنی ان کے اعمال جو ضائع اور برباد ہوئے یہ اس وجہ سے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم کیا ہے، بلکہ خود ان کے اپنے اوپر ظلم کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ انھوں نے نہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں اور کتابوں کی تصدیق کی اور نہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے عمل کیے، بلکہ ریاکاری کرتے رہے۔
Top