Al-Quran-al-Kareem - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ : اور جب غَدَوْتَ : آپ صبح سویرے مِنْ : سے اَھْلِكَ : اپنے گھر تُبَوِّئُ : بٹھانے لگے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مَقَاعِدَ : ٹھکانے لِلْقِتَالِ : جنگ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور جب تو صبح سویرے اپنے گھر والوں کے پاس سے نکلا، مومنوں کو لڑائی کے لیے مختلف ٹھکانوں پر مقرر کرتا تھا اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِكَ۔۔ : یہاں سے غزوۂ احد کا بیان ہے۔ غزوۂ بدر میں ذلت آمیز شکست، ستر آدمی قتل اور ستر قید ہونے کے بعد مشرکین نے جوش انتقام میں مدینہ پر حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنایا اور ارد گرد سے مختلف قبائل کو جمع کر کے تین ہزار کا مسلح لشکر لیا اور جبل احد کے قریب آکر ٹھہر گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ ؓ سے مشورہ کیا۔ بعض نے مدینہ میں رہ کر لڑنے کا مشورہ دیا، جب کہ بعض پرجوش نوجوانوں نے، جو بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے، میدان میں نکل کر لڑنے پر اصرار کیا۔ آپ ان کی رائے کے مطابق ایک ہزار کی جمعیت لے کر باہر نکلے۔ مقام ”شوط“ پر عبداللہ بن ابی نے مسلمانوں کو دھوکا دیا اور اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ لوٹ آیا۔ اس سے بعض مسلمانوں کے حوصلے بھی پست ہوگئے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو ثابت قدمی بخشی۔ رسول اللہ ﷺ سات سو صحابہ ؓ کی یہ جمعیت لے کر آگے بڑھے اور احد کے قریب وادی میں فوج کو آراستہ کیا، جس کی طرف قرآن نے (تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ) میں اشارہ کیا ہے۔ اسلامی فوج کی پشت پر جبل احد تھا اور ایک جانب ٹیلے پر عبداللہ بن جبیر ؓ کی سرکردگی میں پچاس تیر اندازوں کا دستہ متعین تھا، نیز آپ ﷺ نے انھیں حکم دیا تھا کہ اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمارے جسموں کو نوچ رہے ہیں، تو پھر بھی اس جگہ کو نہ چھوڑنا، یہاں تک کہ میں تمہیں پیغام بھیجوں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کفار کو شکست دے دی ہے اور انھیں پامال کردیا ہے، پھر بھی اس جگہ کو نہ چھوڑنا، یہاں تک کہ میں پیغام بھیجوں۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ کفار کو پسپا ہوتے دیکھ کر نیچے اتر آئے اور اس گھاٹی کو چھوڑ دیا جس سے مشرکین کو عقب سے حملہ کرنے کا موقع مل گیا۔ اس اچانک حملے سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ رسول اللہ ﷺ اور چند صحابہ کرام ؓ آپ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ کا دانت مبارک شہید ہوگیا، سر اور پیشانی مبارک بھی زخمی ہوگئے۔ آخر کار صحابہ آپ ﷺ کے گرد دوبارہ جمع ہوئے، جس سے میدان جنگ کا نقشہ بدل گیا اور دشمن کو ناکام ہو کر لوٹ جانا پڑا۔ یہ شوال 3 ھ کا واقعہ ہے۔ ان آیات میں جنگ کے بعض واقعات کی طرف اشارے آ رہے ہیں۔ (ابن کثیر)
Top