Al-Quran-al-Kareem - Aal-i-Imraan : 133
وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ١ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَسَارِعُوْٓا : اور دوڑو اِلٰى : طرف مَغْفِرَةٍ : بخشش مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : اپنا رب وَجَنَّةٍ : اور جنت عَرْضُھَا : اس کا عرض السَّمٰوٰتُ :ٓآسمان (جمع وَالْاَرْضُ : اور زمین اُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دوڑو اپنے رب کی جانب سے بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین (کے برابر) ہے، ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔
وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ : اہل ایمان کو ان اعمال صالحہ کی طرف جلدی کرنی چاہیے جو اللہ تعالیٰ کی مغفرت کا سبب بنتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”نیک اعمال سر انجام دینے میں جلدی کرلو، ایسے فتنوں کے آنے سے پہلے پہلے جو اندھیری رات کے مختلف ٹکڑوں کی طرح (یکے بعد دیگرے) رونما ہوں گے۔ صبح کو آدمی مومن ہوگا اور شام کو کافر ہوگا اور شام کو مومن ہوگا اور صبح کو کافر، وہ اپنے دین کو دنیا کے معمولی سامان کے عوض بیچ دے گا۔“ [ مسلم، الإیمان، باب الحث علی المبادرۃ۔۔ : 118، عن أبی ہریرۃ ؓ ] 2 وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ۔۔ : یعنی جس طرح سود خور کافر کے لیے دوزخ تیار کی گئی ہے، اسی طرح فرماں بردار متقی کے لیے جنت تیار کی گئی ہے اور پھر جنت کے متعلق (عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ۙ) فرما کر اس کی وسعت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : ”اے محمد ! یہ بتائیں کہ جنت کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے تو آگ کہاں ہے ؟“ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ”یہ بتاؤ کہ پہلے رات تھی، پھر نہیں رہی تو کہاں چلی گئی ؟“ اس نے کہا کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ [ صحیح ابن حبان : 103۔ مستدرک حاکم : 1؍92، ح : 103 و صححہ و وافقہ الذہبی ] حقیقت یہ ہے کہ جنت اور جہنم کے جو اوصاف قرآن و حدیث میں جس طرح مذکور ہیں اسی طرح ان پر ایمان رکھنا ضروری ہے، خواہ ہماری عقل و ذہن کی رسائی ان تک نہ ہو، اور یہی نہیں، آخرت کے تمام معاملات کا یہی حال ہے۔
Top