Al-Quran-al-Kareem - Aal-i-Imraan : 196
لَا یَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِی الْبِلَادِؕ
لَا يَغُرَّنَّكَ : نہ دھوکہ دے آپ کو تَقَلُّبُ : چلنا پھرنا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) فِي : میں الْبِلَادِ : شہر (جمع)
تجھے ان لوگوں کا شہروں میں چلنا پھرنا ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے جنھوں نے کفر کیا۔
لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِي الْبِلَادِ۔۔ : اوپر کی آیات میں مومنوں کے گناہ بخشنے اور ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا، حالانکہ وہ فقر و فاقہ کی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کے بالمقابل کفار نہایت عیش و نعمت میں تھے، انھیں دیکھ کر بعض اوقات مسلمان غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے اور مختلف خیالات کی دنیا میں چلے جاتے، لہٰذا ان آیات میں مسلمانوں کا ذہن صاف کرنے کے لیے کفار کا انجام بیان فرمایا اور مسلمانوں کو تسلی دی ہے۔ انس بن مالک ؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ نیکی کے معاملہ میں مومن کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتا، اسے اس نیکی کا بدلہ دنیا میں بھی دیتا ہے اور آخرت میں بھی اور کافر جو نیکیاں اللہ کے لیے کرتا ہے اس کا بدلہ اسے دنیا ہی میں پورا دے دیا جاتا ہے، پھر جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کی کوئی نیکی باقی نہیں ہوگی کہ اس کا بدلہ اسے دیا جائے۔“ [ مسلم، صفات المنافقین، باب جزاء المؤمنین۔۔ : 2808 ] مقصد یہ ہے کہ شہروں میں کفار کے تجارتی کاروبار، ان کی خوش حالی اور مال و دولت کی فراوانی کو دیکھ کر مسلمانوں کے دلوں میں کسی قسم کا حزن و غم نہیں آنا چاہیے، نہ ان کو نا امیدی کا شکار ہونا چاہیے، نہ منافقین کا سا طرز عمل اختیار کرنچا چاہیے۔ جو سختی اور خوف کے وقت پکار اٹھتے ہیں : (مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا) [ الأحزاب : 12 ] ”پیغمبر نے تو ہم سے محض فریب اور دھوکے کا وعدہ کیا ہے۔“ کفار کی دنیوی خوشحالی سے کفر کے حق ہونے پر استدلال کرنا چاہیے، یہ چند روزہ زندگی کا قلیل سا سامان اور عارضی بہار ہے، مرنے کے بعد ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ نہایت برا ٹھکانا ہے۔ اس کے مخاطب بظاہر تو رسول اللہ ﷺ ہیں مگر مراد امت ہے۔ اس کے بعد اگلی آیت میں مومنین کی جزا کا ذکر فرمایا، تاکہ مزید تشفی حاصل ہو اور یہ چونکہ کفار کے مقابلے میں بیان کی جا رہی ہے، اس لیے ”لکن“ کا لفظ بطور استدارک ذکر فرمایا۔ (المنار)
Top