Al-Quran-al-Kareem - Aal-i-Imraan : 38
هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗ١ۚ قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً١ۚ اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ
ھُنَالِكَ : وہیں دَعَا : دعا کی زَكَرِيَّا : زکریا رَبَّهٗ : اپنا رب قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب ھَبْ لِيْ : عطا کر مجھے مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس ذُرِّيَّةً : اولاد طَيِّبَةً : پاک اِنَّكَ : بیشک تو سَمِيْعُ : سننے والا الدُّعَآءِ : دعا
وہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا کی، کہا اے میرے رب ! مجھے اپنے پاس سے ایک پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا کو بہت سننے والا ہے۔
ھُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهٗ ۚ۔۔ : زکریا ؑ بوڑھے ہوچکے تھے اور ابھی تک بےاولاد تھے، بیوی بانجھ تھی، بظاہر انھیں اولاد کی کوئی امید نہ تھی، لیکن یہ دیکھ کر کہ کس طرح مریم [ کو خرق عادت کے طور پر بےموسم کا رزق پہنچ رہا ہے، ان کے دل میں بھی خواہش پیدا ہوئی کہ بےموسم کا رزق پہنچانے والا مایوسی کے عالم میں اولاد بھی عطا فرما سکتا ہے، چناچہ اسی جگہ اور اسی وقت اللہ تعالیٰ کے حضور نیک اولاد کی دعا کی۔ بعض علماء نے مریم [ کو خرق عادت میوے پہنچنے کا انکار کیا اور کہا ہے کہ یہ محاورہ ہے کہ خدا رسیدہ لوگ ہر نعمت کو (من عند اللہ) اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیتے ہیں، مگر زکریا ؑ کا اس حالت کو دیکھ کر اظہار تعجب اور دعا کرنا بتارہا ہے کہ رزق خرق عادت (بطور کرامت) ہی مل رہا تھا۔ پچھلی آیت کے حاشیہ میں خبیب ؓ کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں اور زکریا ؑ کا واقعہ سورة مریم کے شروع میں ملاحظہ کریں۔
Top