Al-Quran-al-Kareem - Aal-i-Imraan : 90
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الضَّآلُّوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : کافر ہوگئے بَعْدَ : بعد اِيْمَانِهِمْ : اپنے ایمان ثُمَّ : پھر ازْدَادُوْا : بڑھتے گئے كُفْرًا : کفر میں لَّنْ تُقْبَلَ : ہرگز نہ قبول کی جائے گی تَوْبَتُھُمْ : ان کی توبہ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی لوگ ھُمُ : وہ الضَّآلُّوْنَ : گمراہ
بیشک وہ لوگ جنھوں نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا، پھر کفر میں بڑھ گئے، ان کی توبہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی اور وہی لوگ گمراہ ہیں۔
یعنی یہود پہلے اقرار کرتے تھے کہ یہ یقیناً نبی ہے لیکن جب ان سے معاملہ ہوا تو وہ منکر ہوگئے۔ (موضح) اور ایسے لوگ بھی اس کا مصداق ہیں جو اسلام سے مرتد ہونے کے بعد موت کے وقت تک کفر پر قائم رہتے ہیں، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ حالت نزع میں اگر یہ لوگ توبہ کریں گے بھی تو ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْ غِرْ) [ ترمذی، الدعوات، باب إن اللہ یقبل التوبۃ۔۔ : 3537۔ حسنہ الألبانی ]”یقیناً اللہ تبارک و تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک روح حلق تک نہ پہنچے۔“ نیز دیکھیے سورة نساء (18) اور ”الضَّاۗلُّوْنَ“ سے مراد ”کامل درجہ کے گمراہ ہیں۔“ (رازی)
Top