Al-Quran-al-Kareem - Al-Ahzaab : 10
اِذْ جَآءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا
اِذْ : جب جَآءُوْكُمْ : وہ تم پر آئے مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر وَمِنْ اَسْفَلَ : اور نیچے سے مِنْكُمْ : تمہارے وَاِذْ : اور جب زَاغَتِ الْاَبْصَارُ : کج ہوئیں (چندھیا گئیں) آنکھیں وَبَلَغَتِ : اور پہنچ گئے الْقُلُوْبُ : دل (جمع) الْحَنَاجِرَ : گلے وَتَظُنُّوْنَ : اور تم گمان کرتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں الظُّنُوْنَا : بہت سے گمان
جب وہ تم پر تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے آگئے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل گلوں تک پہنچ گئے اور تم اللہ کے بارے میں گمان کرتے تھے، کئی طرح کے گمان۔
اِذْ جَاۗءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ : اس سے مراد مدینہ کا بالائی حصہ، یعنی مشرقی جانب ہے۔ اس طرف سے عیینہ بن حصن کی قیادت میں قبیلہ غطفان، عوف بن مالک کی قیادت میں قبیلہ ہوازن اور طلیحہ بن خویلد اسدی کی قیادت میں نجد کے قبائل آئے اور ان کے ساتھ بنو نضیر کے یہودی بھی مل گئے۔ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ : نیچے کی جانب سے مراد مدینے کا مغربی حصہ ہے۔ اس طرف سے ابوسفیان بن حرب کی قیادت میں کفار مکہ اور کچھ دوسرے لوگ آئے۔ عین حالت جنگ میں بنو قریظہ نے بھی صلح توڑ دی اور دشمن کے ساتھ مل گئے۔ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ : ”زَاغَ یَزِیْغُ زَیْغًا“ (ض) کا معنی ہے ”مَالَ“ یعنی جھکنا، ٹیڑھا ہونا۔ سورة نجم میں ہے : (مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى) [ النجم : 17 ] ”نہ نگاہ ادھر ادھر ہوئی اور نہ حد سے آگے بڑھی۔“ اللہ تعالیٰ نے آنکھ کے اوپر نیچے اور دائیں بائیں کی جہتوں میں حرکت کرنے کی خاص کیفیت رکھی ہے، جب زیادہ خوف یا گھبراہٹ آپڑے تو نگاہ ان جہتوں سے پھرجاتی ہے، پھر کبھی وہ کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے، جیسا کہ فرمایا : (فَاِذَا هِىَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا) [ الأنبیاء : 97 ] ”تو اچانک یہ ہوگا کہ ان لوگوں کی آنکھیں کھلی رہ جائیں گی جنھوں نے کفر کیا۔“ کبھی ایک ہی طرف پھری ہوئی رہ جاتی ہے، جیسا کہ اس آیت میں ہے اور کبھی بےاختیار گھومنے لگتی ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے : (تَدُوْرُ اَعْيُنُهُمْ كَالَّذِيْ يُغْشٰى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ) [ الأحزاب : 19 ] ”ایسے دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں اس شخص کی طرح گھومتی ہیں جس پر موت کی غشی طاری کی جا رہی ہو۔“ مراد خوف کی شدت ہے۔ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ : ”الحناجر“ ”حَنْجَرَۃٌ“ کی جمع ہے، حلق کا آخری حصہ۔ خوف کی شدت کی تصویر کھینچی ہے، جیسے دل شدید دکھڑکن اور گھبراہٹ کی وجہ سے اپنی جگہ چھوڑ کر حلق تک آپہنچا ہو۔ بقاعی نے کہا، ہوسکتا ہے یہ تشبیہ کے بجائے حقیقت ہو کہ طحال اور پھیپھڑا پھول کر دل کو گلے کی طرف دھکیل دیں، اس لیے بزدل کو کہتے ہیں : ”اِنْتَفَخَ مَنْخِرُہُ أَيْ رِءَتُہُ“ یعنی اس کا پھیپھڑا پھول گیا۔ خوف کی وجہ سے دل گلے کی طرف جانے کی وجہ سے بعض اوقات سانس بند ہو کر آدمی کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (شَرُّ مَا فِيْ رَجُلٍ شُحٌّ ہَالِعٌ، وَجُبْنٌ خَالِعٌ) [ مسند أحمد : 2؍320، ح : 8283، عن أبي ہریرۃ ؓ ، صحیح ] ”بد ترین چیز جو آدمی میں ہے، وہ شدید حرص ہے جو بےحوصلہ بنا دینے والی ہے اور بزدلی ہے جو دل نکال دینے والی ہے۔“ وَتَظُنُّوْنَ باللّٰهِ الظُّنُوْنَا : اس سے مراد یا تو کمزور ایمان والے لوگ ہیں، کیونکہ پختہ ایمان والوں کا ذکر آگے آ رہا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ ۙ قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ ۡ وَمَا زَادَهُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا) [ الأحزاب : 22 ] ”اور جب مومنوں نے لشکروں کو دیکھا تو انھوں نے کہا یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا، اور اس چیز نے ان کو ایمان اور فرماں برداری ہی میں زیادہ کیا۔“ ایسے کمزور ایمان والے لوگ یہ گمان کر رہے تھے کہ اب کے بار نہیں بچیں گے۔ یا سبھی مومن مراد ہیں اور کئی طرح کے گمانوں سے مراد وہ گمان ہیں جو بےاختیار اس موقع پر دل میں آجاتے ہیں، جیسا کہ سورة بقرہ (214) اور سورة یوسف (110) میں ہے۔
Top