Al-Quran-al-Kareem - Al-Ahzaab : 11
هُنَالِكَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا
هُنَالِكَ : یہاں ابْتُلِيَ : آزمائے گئے الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) وَزُلْزِلُوْا : اور وہ ہلائے گئے زِلْزَالًا : ہلایا جانا شَدِيْدًا : شدید
اس موقع پر ایمان والے آزمائے گئے اور ہلائے گئے، سخت ہلایا جانا۔
هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ : یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ امتحان ہوجائے کہ ایسے سخت حالات میں کون ایمان پر قائم رہتا ہے اور کس کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا : چاروں طرف سے لشکروں کے ہجوم اور شہر کے اندر سے بنو قریظہ کی عہد شکنی کی خبر سے مسلمانوں کی یہ حالت ہوئی جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ اس وقت خوف کی حالت کا اور مسلمانوں کی جانفشانی کا اندازہ زبیر اور حذیفہ ؓ کے بیانات سے ہوتا ہے۔ جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احزاب کے دن فرمایا : (مَنْ یَأْتِیْنَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ ؟) ”کون ہے جو ہمارے پاس ان (بنو قریظہ کے یہودی) لوگوں کی خبر لائے ؟“ زبیر ؓ نے کہا : ”میں ہوں۔“ آپ نے پھر فرمایا : ”کون ہے جو ہمارے پاس ان لوگوں کی خبر لائے ؟“ زبیر ؓ نے کہا : ”میں ہوں۔“ پھر فرمایا : ”کون ہے جو ہمارے پاس ان لوگوں کی خبر لائے ؟“ زبیر ؓ نے کہا : ”میں ہوں۔“ آپ ﷺ نے فرمایا : (إِنَّ لِکُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِیًّا، وَ إِنَّ حَوَارِيَّ الزُّبَیْرُ) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق و ھي الأحزاب : 4113 ]”ہر نبی کا ایک حواری (خاص مددگار) ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔“ ابراہیم تیمی کے والد بیان کرتے ہیں کہ ہم حذیفہ ؓ کے پاس تھے، ایک آدمی کہنے لگا : ”اگر میں رسول اللہ ﷺ کو پا لیتا تو آپ کے ساتھ مل کر لڑتا اور پوری کوشش لگا دیتا۔“ تو حذیفہ ؓ نے کہا : ”تو ایسا کرتا ؟ حالانکہ میں نے اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احزاب کی رات دیکھا اور ہمیں سخت آندھی اور سردی نے گھیرا ہوا تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (أَلَا رَجُلٌ یَأْتِیْنِيْ بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ مَعِيَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ؟) ”کیا کوئی آدمی ہے جو میرے پاس ان لوگوں کی خبر لائے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن میرے ساتھ کر دے گا ؟“ ہم خاموش رہے، کسی نے آپ کو جواب نہیں دیا، پھر فرمایا : ”کیا کوئی آدمی ہے جو میرے پاس ان لوگوں کی خبر لائے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن میرے ساتھ کر دے گا ؟“ ہم خاموش رہے اور کسی نے آپ ﷺ کو جواب نہیں دیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : (قُمْ یَا حُذَیْفَۃُ ! فَأْتِنَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ) ”حذیفہ ! اٹھو اور ہمارے پاس ان لوگوں کی خبر لے کر آؤ۔“ اب میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا، کیونکہ آپ نے میرا نام لے کر مجھے اٹھنے کا کہا تھا۔ آپ نے فرمایا : (اِذْہَبْ فَأْتِنِيْ بِخَبَرِ الْقَوْمِ وَلَا تَذْعَرْہُمْ عَلَيَّ) ”جاؤ، میرے پاس ان لوگوں کی خبر لے کر آؤ اور انھیں مجھ پر اکسا نہ دینا (یعنی ایسا کوئی کام نہ کرنا جس کی وجہ سے وہ بھڑک اٹھیں)۔“ جب میں آپ کے پاس سے نکلا تو ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں، یہاں تک کہ میں ان کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا کہ ابوسفیان آگ کے ساتھ اپنی پیٹھ سینک رہا تھا۔ میں نے تیر کمان پر چڑھایا اور ارادہ کیا کہ اسے نشانہ بناؤں، تو مجھے رسول اللہ ﷺ کی بات یاد آگئی کہ انھیں مجھ پر اکسا نہ دینا اور اگر میں تیر مار دیتا تو سیدھا اسے لگتا، پھر میں واپس آیا تو ایسے ہی محسوس ہوتا تھا جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں۔ جب میں آپ ﷺ کے پاس پہنچا تو میں نے آپ کو ان لوگوں کی خبر بیان کی اور فارغ ہوا تو مجھے سردی نے آلیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنا ایک زائد کمبل اوڑھا دیا، جسے آپ اوڑھ کر نماز ادا کیا کرتے تھے۔ میں صبح تک سویا رہا، جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : (قُمْ یَا نَوْمَانُ !) ”بہت زیادہ سونے والے ! اٹھ جاؤ۔“ [ مسلم، الجھاد والسیر، باب غزوۃ الأحزاب : 1788 ]
Top