Al-Quran-al-Kareem - Al-Ahzaab : 13
وَ اِذْ قَالَتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْهُمْ یٰۤاَهْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْا١ۚ وَ یَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَةٌ١ۛؕ وَ مَا هِیَ بِعَوْرَةٍ١ۛۚ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا
وَاِذْ : اور جب قَالَتْ : کہا طَّآئِفَةٌ : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان میں سے يٰٓاَهْلَ يَثْرِبَ : اے یثرت (مدینہ) والو لَا مُقَامَ : کوئی جگہ نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے فَارْجِعُوْا ۚ : لہذا تم لوٹ چلو وَيَسْتَاْذِنُ : اور اجازت مانگتا تھا فَرِيْقٌ : ایک گروہ مِّنْهُمُ : ان میں سے النَّبِيَّ : نبی سے يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے تھے اِنَّ : بیشک بُيُوْتَنَا : ہمارے گھر عَوْرَةٌ ړ : غیر محفوظ وَمَا هِىَ : حالانکہ وہ نہیں بِعَوْرَةٍ ڔ : غیر محفوظ اِنْ يُّرِيْدُوْنَ : وہ نہیں چاہتے اِلَّا : مگر (صرف) فِرَارًا : فرار
اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا اے یثرب والو ! تمہارے لیے ٹھہرنے کی کوئی صورت نہیں، پس لوٹ چلو، اور ان میں سے ایک گروہ نبی سے اجازت مانگتا تھا، کہتے تھے ہمارے گھر تو غیر محفوظ ہیں، حالانکہ وہ کسی طرح غیر محفوظ نہیں، وہ بھاگنے کے سوا کچھ چاہتے ہی نہیں۔
وَاِذْ قَالَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْهُمْ يٰٓاَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ : ”یثرب“ مدینے کا پرانا نام ہے، رسول اللہ ﷺ کی آمد کے بعد اس کا نام ”مدینۃ النبی ﷺ“ پڑگیا، جو اختصار کے ساتھ مدینہ مشہور ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (رَأَیْتُ فِي الْمَنَامِ أَنِّيْ أُہَاجِرُ مِنْ مَکَّۃَ إِلٰی أَرْضٍ بِہَا نَخْلٌ، فَذَہَبَ وَہَلِيْ إِلٰی أَنَّہَا الْیَمَامَۃُ أَوْ ہَجَرُ ، فَإِذَا ہِيَ الْمَدِیْنَۃُ یَثْرِبُ) [ بخاري، المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام : 3622 ] ”میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جو کھجوروں والی ہے، تو مجھے گمان ہوا کہ وہ جگہ یمامہ یا ہجر ہے، لیکن وہ یثرب یعنی مدینہ منورہ ہے۔“ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (أُمِرْتُ بِقَرْیَۃٍ تَأْکُلُ الْقُرٰی یَقُوْلُوْنَ یَثْرِبُ وَہِيَ الْمَدِیْنَۃُ ، تَنْفِي النَّاسَ کَمَا یَنْفِي الْکِیْرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ) [ بخاري، فضائل المدینۃ، باب فضل المدینۃ۔۔ : 1871 ] ”مجھے ایک بستی کے متعلق حکم دیا گیا ہے جو تمام بستیوں کو کھاجائے گی، لوگ اسے یثرب کہتے ہیں، حالانکہ وہ ”المدینہ“ ہے۔ وہ (منافق) لوگوں کو اس طرح دور کرے گی جس طرح بھٹی لوہے کی میل کو دور کردیتی ہے۔“ فَارْجِعُوْا : منافقین کے ایک گروہ نے مسلمانوں کی ہمتیں پست کرنے کے لیے یہ کہنا شروع کردیا کہ سلع پہاڑی اور خندق کے درمیان (جہاں رسول اللہ ﷺ کا معسکر تھا) اب رہنے کی کوئی صورت نہیں، اس لیے واپس لوٹ جاؤ۔ اس واپس لوٹ جاؤ کا مطلب یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مدینہ واپس چلو اور یہ بھی کہ دوبارہ پہلے دین پر واپس ہوجاؤ اور مشرکین کے ساتھ مل جاؤ، تاکہ وہ تمہیں نقصان نہ پہنچائیں۔ یعنی وہ مسلمانوں کو ارتداد کی ترغیب دیتے، مگر ایسے الفاظ میں کہ اگر کوئی بازپرس کرے تو کہیں کہ ہمارا مطلب تو مدینہ واپس چلنا تھا۔ وَيَسْتَاْذِنُ فَرِيْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ : ان میں سے کچھ لوگوں نے نبی کریم ﷺ سے یہ کہہ کر اپنے گھروں کو واپسی کی اجازت مانگی کہ ہمارے گھر بالکل غیر محفوظ ہیں اور ڈر ہے کہ کہیں بنو قریظہ حملہ کر کے ہمارے بچوں اور عورتوں کو ہلاک نہ کردیں، یا چور لوٹ مار نہ کریں۔ وَمَا هِىَ بِعَوْرَةٍ : حالانکہ وہ کسی طرح غیر محفوظ نہیں تھے، کیونکہ مسلمانوں نے تمام عورتوں اور بچوں کو شہر کی مضبوط حویلیوں میں رکھ کر اور ناکے لگا کر محفوظ کردیا تھا۔ اِنْ يُّرِيْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا : یعنی ان کی اجازت مانگنے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے، بلکہ وہ کسی طرح میدان جنگ سے بھاگنا چاہتے ہیں۔
Top