Al-Quran-al-Kareem - Al-Ahzaab : 26
وَ اَنْزَلَ الَّذِیْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَیَاصِیْهِمْ وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ وَ تَاْسِرُوْنَ فَرِیْقًاۚ
وَاَنْزَلَ : اور اتار دیا الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو ظَاهَرُوْهُمْ : جنہوں نے ان کی مدد کی مِّنْ : سے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مِنْ : سے صَيَاصِيْهِمْ : ان کے قلعے وَقَذَفَ : اور ڈال دیا فِيْ : میں قُلُوْبِهِمُ : ان کے دل الرُّعْبَ : رعب فَرِيْقًا : ایک گروہ تَقْتُلُوْنَ : تم قتل کرتے ہو وَتَاْسِرُوْنَ : اور تم قید کرتے ہو فَرِيْقًا : ایک گروہ
اور اس نے ان اہل کتاب کو، جنھوں نے ان کی مدد کی تھی، ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، ایک گروہ کو تم قتل کرتے تھے اور دوسرے گروہ کو قید کرتے تھے۔
وَاَنْزَلَ الَّذِيْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَيَاصِيْهِمْ : ”صَیَاصِيْ“ ”صِیْصِیَۃٌ“ کی جمع ہے۔ جولا ہے کا تانے اور بانے کے دھاگوں کو سیدھا کرنے والا آلہ، مُرغ کا کانٹا جو اس کی ٹانگ کے ایک طرف نکلا ہوتا ہے، گائے اور ہرن وغیرہ کا سینگ، قلعہ اور ہر وہ چیز جس کے ساتھ کوئی اپنا دفاع اور حفاظت کرتا ہے۔ (قاموس) قریش، بنو غطفان اور ان کے ساتھ آنے والوں کے واپس جانے کے ساتھ ہی معرکۂ احزاب ختم ہوگیا، مگر بنو قریظہ کے ساتھ معرکہ ختم نہیں ہوا، جنھوں نے اس موقع پر رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا معاہدہ توڑ ڈالا تھا۔ جس میں یہ عہد کیا گیا تھا کہ باہر سے آنے والے حملہ آور کے مقابلے میں مسلمان اور یہودی ایک دوسرے کی مدد کریں گے، لیکن یہودیوں نے یہ عہد توڑ ڈالا اور قریش اور اتحادی لشکروں کے ساتھ اس بات پر اتفاق کرلیا کہ وہ مسلمانوں کے پیچھے سے مدینہ پر حملہ آور ہوں گے۔ جب رسول اللہ ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے سعد بن معاذ، سعد بن عبادہ اور ایک اور انصاری صحابی ؓ کو اس بات کی تحقیق کے لیے بھیجا اور فرمایا : ”اگر وہ صلح پر قائم ہوں تو سب کے سامنے بیان کردینا اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو اشارے سے سمجھا دینا۔“ وہ ان کے پاس گئے تو دیکھا کہ انھوں نے معاہدہ بری طرح توڑ ڈالا ہے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق بھی نازیبا الفاظ کہے اور کہنے لگے : ”محمد کون ہے ؟ ہمارے اور محمد کے درمیان کوئی عہد ہے نہ پیمان۔“ سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ ؓ نے آ کر رسول اللہ ﷺ کو اشارے سے حقیقت حال سے آگاہ کیا۔ بنو قریظہ کے ارادے نہایت خطرناک تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں ناکام و نامراد کردیا۔ قریش اور ان کے درمیان بےاعتمادی پیدا ہوگئی اور ان کے قریش کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی نوبت نہیں آئی۔ آخر وہ قلعوں میں بند ہو کر مقابلے پر آمادہ ہوگئے۔ وَقَذَفَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ : جب رسول اللہ ﷺ خندق سے فارغ ہو کر مدینہ واپس آئے تو ہتھیار اتار کر ابھی غسل ہی کیا تھا کہ جبریل ؑ آئے اور کہنے لگے : ”آپ نے ہتھیار رکھ دیے، مگر ہم فرشتوں نے ابھی ہتھیار نہیں رکھے، بنوقریظہ کی طرف چلیں۔“ چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا : (لَا یُصَلِّیَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلاَّ فِيْ بَنِيْ قُرَیْظَۃَ) [ بخاري، المغازي، باب مرجع النبي ﷺ من الأحزاب۔۔ : 4119، 4117 ] ”کوئی شخص عصر کی نماز نہ پڑھے، مگر بنو قریظہ کے پاس جا کر۔“ چناچہ آپ نے جا کر بنو قریظہ کا محاصرہ کرلیا۔ یہ محاصرہ ایک ماہ کے قریب جاری رہا، حتیٰ کہ وہ مقابلے سے عاجز آگئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، آخر کار وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کرنے پر آمادہ ہوگئے، اس شرط پر کہ ان کے بارے میں سعدبن معاذ ؓ جو فیصلہ کریں انھیں قبول ہوگا۔ سعد بن معاذ ؓ کو خندق کے دوران بازو کی رگ میں تیر لگا تھا، جس کے نتیجے میں آخر کار وہ شہید بھی ہوگئے۔ ان کے سامنے یہ بات بھی تھی کہ اگر بنو قریظہ قریش کے ساتھ بنائے ہوئے منصوبے کے مطابق کامیاب ہوجاتے تو مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیتے، یہ تو اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ اس نے مسلمانوں کو محفوظ رکھا۔ فَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ وَتَاْسِرُوْنَ فَرِيْقًا : ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ اہل قریظہ سعد بن معاذ ؓ کے فیصلے پر اتر آئے تو رسول اللہ ﷺ نے سعد کی طرف پیغام بھیجا۔ وہ ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے، جب مسجد کے قریب آئے تو آپ ﷺ نے انصار سے فرمایا : (قُوْمُوْا إِلٰی سَیِّدِکُمْ أَوْ خَیْرِکُمْ) ”اپنے سردار یا (فرمایا) اپنے بہترین آدمی کی طرف اٹھو۔“ پھر آپ نے فرمایا : (ھٰؤُلَاءِ نَزَلُوْا عَلٰی حُکْمِکَ) ”یہ لوگ تیرے فیصلے پر اترے ہیں۔“ سعد ؓ نے کہا : (تُقْتَلُ مُقَاتِلَتَہُمْ وَ تُسْبٰی ذَرَارِیُّہُمْ) ”ان کے لڑائی کے قابل مرد قتل کردیے جائیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی و غلام بنا لیا جائے۔“ آپ ﷺ نے فرمایا : (قَضَیْتَ بِحُکْمِ اللّٰہِ وَرُبَّمَا قَالَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ) ”تو نے اللہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔“ یا یہ فرمایا : ”بادشاہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا۔“ [ بخاري، المغازي، باب مرجع النبي ﷺ من الأحزاب۔۔ : 4121 ] بنو قریظہ کے عطیہ قرظی ؓ بیان کرتے ہیں : ”میں بنو قریظہ کے قیدیوں میں سے تھا، مسلمان دیکھتے تھے جس کے (زیر ناف) بال اگے ہوتے اسے قتل کردیتے اور جس کے نہ اگے ہوتے اسے قتل نہ کرتے، چناچہ میں ان میں سے تھا جن کے بال نہیں اگے تھے۔“ [ أبوداوٗد، الحدود، باب في الغلام یصیب الحد : 4404 ]
Top