Al-Quran-al-Kareem - Al-Ahzaab : 56
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓئِكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ : اور اس کے فرشتے يُصَلُّوْنَ : درود بھیجتے ہیں عَلَي النَّبِيِّ ۭ : نبی پر يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو صَلُّوْا : درود بھیجو عَلَيْهِ : اس پر وَسَلِّمُوْا : اور سلام بھیجو تَسْلِيْمًا : خوب سلام
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اس پر صلوٰۃ بھیجو اور سلام بھیجو، خوب سلام بھیجنا۔
اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰۗىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ۔۔ : لفظ ”صلاۃ“ کی تفسیر اس سے پہلے آیت (43) میں گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت سے اور فرشتوں اور مومنوں کی نسبت سے ”صلاۃ“ کا کیا معنی ہے۔ اس سورت میں رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہونے والی کئی خصوصیات کا ذکر فرمایا، مثلاً آپ کا مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھنا، آپ کے لیے چار سے زیادہ بیویوں کا حلال ہونا، آپ کا خاتم النّبیین ہونا، آپ کی بیویوں کا امہات المومنین ہونا، ان کے حجاب و احترام کا خصوصی اہتمام اور آپ ﷺ کے بعد آپ کی ازواج سے نکاح کی حرمت وغیرہ۔ ”اِنَّ“ کا لفظ عموماً تعلیل کے لیے، یعنی پہلی باتوں کی علت بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔ زیر تفسیر آیت میں مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کے ان بلند مراتب کا خاص خیال رکھنے اور ان کے تحفظ و احترام کا حکم دینے کی وجہ ذکر فرمائی۔ ابن کثیر فرماتے ہیں : ”مقصود اس آیت سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ”ملأ اعلیٰ“ یعنی آسمانوں کی بلند مجلس میں اپنے بندے اور نبی کے مرتبہ و منزلت کی بلندی کی خبر دے رہا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ آپ کی تعریف و ثنا کرتا اور آپ پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے بھی آپ کے لیے رحمت و مغفرت اور بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں۔ آسمانوں والوں کی خبر دے کر اب زمین والوں کو حکم دیتا ہے کہ تم بھی آپ پر صلاۃ وسلام بھیجو، تاکہ آپ کی تعریف و ثنا پر اور آپ کے لیے مغفرت و رحمت اور برکت کی دعا پر عالم علوی (آسمانوں والے) اور عالم سفلی (زمین والے) سب متحد ہوجائیں۔“ 3 آیت کے آخری الفاظ سے ظاہر ہے کہ کلام میں کچھ الفاظ حذف ہیں، جو خود بخود معلوم ہو رہے ہیں، یعنی ”وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا“ سے ظاہر ہے کہ آیت کی ابتدا اس طرح ہے : ”إِنَّ اللّٰہَ وَ مَلَاءِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ وَ یُسَلِّمُوْنَ“ اسے احتباک کہتے ہیں اور یہ کلام الٰہی کے حسن کا ایک مظہر ہے۔ (بقاعی) انبیاء ؑ پر اللہ تعالیٰ کے سلام کا ذکر قرآن میں الگ الگ بھی آیا ہے، جیسے : (سلم علی نوح فی العلمین) ، (سلم علی ابراھیم) وغیرہ اور اکٹھا بھی آیا ہے، جیسے : (سلم علی المرسلین) [ دیکھیے الصافات : 79، 109، 181 ] 3 رسول اللہ ﷺ سے آپ پر صلاۃ کے لیے کئی الفاظ مروی ہیں، جو سبھی اس مقصد کے لیے پڑھے جاسکتے ہیں۔ ان میں زیادہ مشہور کعب بن عجرہ ؓ کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں : (سَأَلْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَقُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! کَیْفَ الصَّلَاۃُ عَلَیْکُمْ أَھْلَ الْبَیْتِ ؟ فَإِنَّ اللّٰہَ قَدْ عَلَّمَنَا کَیْفَ نُسَلِّمُ ، قَالَ قُوْلُوْا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی آلِ إِبْرَاھِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاھِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب : 3370 ] ”ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا : ”ہم نے کہا : ”آپ اہل بیت (گھر والوں) پر صلاۃ کس طرح ہے ؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تو سکھا دیا ہے کہ ہم آپ پر سلام کیسے بھیجیں۔“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”تم یوں کہو کہ اے اللہ ! محمد اور آل محمد پر صلاۃ بھیج، جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر صلاۃ بھیجی، بیشک تو تعریف کیا ہوا بزرگی والا ہے اور اے اللہ ! محمد اور آل محمد پر برکتیں نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو تعریف کیا ہوا ہے، بزرگی والا ہے۔“ اس حدیث اور دوسری احادیث میں صحابہ کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سکھا دیا ہے کہ ہم آپ پر سلام کیسے بھیجیں، اس سلام سے مراد نماز کے تشہد میں سلام کی تعلیم ہے۔ عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں : (عَلَّمَنِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ ، وَ کَفِّيْ بَیْنَ کَفَّیْہِ ، التَّشَھُّدَ کَمَا یُعَلِّمُنِي السُّوْرَۃَ مِنَ الْقُرْآنِ : اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہُ ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَاد اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ ، أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ) [ بخاري، الاستئذان، باب الأخذ بالیدین : 6265 ] ”مجھے رسول اللہ ﷺ نے تشہد اس طرح سکھایا جس طرح مجھے قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے، اس وقت میری ہتھیلی آپ کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھی : ”تمام قولی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں اور تمام بدنی عبادتیں اور تمام مالی عبادتیں، سلام ہو تجھ پر اے نبی ! اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے صالح بندوں پر، میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے۔“ جس طرح اس حدیث سے ظاہر ہے کہ آیت میں ”وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا“ پر عمل کی تعلیم رسول اللہ ﷺ نے نماز میں تشہد کے اندر سلام کے الفاظ کے ساتھ دی ہے، اسی طرح صحابہ نے آپ ﷺ سے صلاۃ کے بھی وہی الفاظ سیکھنے کی درخواست کی جو نماز میں پڑھے جائیں۔ چناچہ ابو مسعود عقبہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں : (أَقْبَلَ رَجُلٌ حَتّٰی جَلَسَ بَیْنَ یَدَيْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَ نَحْنُ عِنْدَہُ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! اَمَّا السَّلَامُ عَلَیْکَ فَقَدْ عَرَفْنَاہُ فَکَیْفَ نُصَلِّيْ عَلَیْکَ إِذَا نَحْنُ صَلَّیْنَا فِيْ صَلَاتِنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ ؟ قَالَ فَصَمَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ حَتّٰی أَحْبَبْنَا أَنَّ الرَّجُلَ لَمْ یَسْأَلْہُ فَقَالَ إِذَا أَنْتُمْ صَلَّیْتُمْ عَلَيَّ فَقُوْلُوْا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ وَ آلِ إِبْرَاھِیْمَ وَ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاھِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ) [ مسند أحمد : 4؍119، ح : 17076، مسند احمد کے محقق نے بارہ کتب حدیث سے اس حدیث کا حوالہ نقل کر کے اس کی صحت بیان فرمائی ہے ] ”ایک آدمی آیا اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا اور ہم آپ ﷺ کے پاس موجود تھے، اس نے کہا : ”یا رسول اللہ ! آپ پر سلام کو تو ہم جان چکے، اب ہم آپ پر صلاۃ کیسے بھیجیں، جب ہم اپنی نماز میں صلاۃ بھیجیں، اللہ تعالیٰ آپ پر صلاۃ نازل فرمائے ؟“ تو رسول اللہ ﷺ کچھ دیر خاموش رہے، حتیٰ کہ ہم نے چاہا کہ یہ شخص یہ سوال نہ کرتا کہ اتنے میں آپ ﷺ نے فرمایا : ”جب تم مجھ پر صلاۃ بھیجو تو اس طرح کہو۔“ چناچہ آپ ﷺ نے صلاۃ کے ان الفاظ کی تعلیم دی جو اوپر حدیث میں مذکور ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے حکم ”صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا“ سے اور رسول اللہ ﷺ کی اس پر عمل کے لیے تشہد میں سلام اور صلاۃ کے الفاظ کی بہ نفس نفیس تعلیم سے ظاہر ہے کہ کم از کم نماز میں یہ صلاۃ وسلام پڑھنا ضروری ہے۔ بعض حضرات کی اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ صلاۃ وسلام زندگی میں صرف ایک دفعہ فرض ہے۔ بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ کلمۂ شہادت بھی زندگی میں صرف ایک دفعہ قبول اسلام کے وقت پڑھنا فرض ہے۔ حالانکہ صلاۃ کے علاوہ کلمہ شہادت پڑھنے کا حکم بھی ہر تشہد میں، اذان کا جواب دینے میں اور دوسرے کئی مقامات پر آیا ہے۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ یہ لوگ زندگی میں صرف ایک دفعہ کلمہ اور درود پڑھنا فرض ہونے پر امت کے اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں، حالانکہ انھیں خوب معلوم ہے کہ کتنے جلیل القدر ائمہ نے نماز میں درود وسلام کو فرض تسلیم کیا ہے، پھر بھی اپنے غلط دعوئ اجماع پر اصرار کرتے چلے جاتے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں ایسے کئی مواقع مذکور ہیں جہاں درود پڑھنے کا حکم ہے۔ 3 بہت سی احادیث میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر آنے پر صلاۃ بھیجنے کی تاکید آئی ہے۔ علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اَلْبَخِیْلُ الَّذِيْ مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَيَّ) [ ترمذي، الدعوات، باب رغم أنف رجل ذکرت عندہ۔۔ : 3546 ] ”بخیل وہ ہے جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے تو وہ مجھ پر صلاۃ نہ پڑھے۔“ ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَيَّ وَ رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَیْہِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ یُغْفَرَ لَہُ وَ رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ أَدْرَکَ عِنْدَہُ أَبَوَاہُ الْکِبَرَ فَلَمْ یُدْخِلاَہُ الْجَنَّۃَ) [ ترمذي، الدعوات، باب رغم أنف رجل ذکرت عندہ۔۔ : 3545، و قال الألباني حسن صحیح ] ”اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے تو وہ مجھ پر صلاۃ نہ بھیجے اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس پر ماہ رمضان آئے، پھر وہ اس کی بخشش ہونے سے پہلے گزر جائے اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے والدین اس کے پاس بڑھاپے کو پائیں پھر وہ اسے جنت میں داخل نہ کروائیں۔“ ان احادیث کی رو سے رسول اللہ ﷺ کے ذکر پر صلاۃ پڑھنا لازم ہے، اگرچہ آپ کا نام آنے پر ہر مرتبہ صلاۃ پڑھنی چاہیے اور محدثین کا یہی قول ہے، تاہم کسی مجلس میں آپ کا نام آنے پر اگر ایک مرتبہ صلاۃ پڑھ لے تو امید ہے کہ صلاۃ نہ پڑھنے کی وعید سے بچ جائے گا۔ جیسا کہ امام ترمذی نے بعض اہل علم سے نقل فرمایا ہے، کیونکہ حدیث کے الفاظ میں اس کی گنجائش موجود ہے اور آگے فائدہ (6) میں مذکور دوسری حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ 3 نماز میں نبی ﷺ پر جن الفاظ میں صلاۃ پڑھی جاتی ہے نماز کے علاوہ بھی انھی الفاظ میں پڑھی جائے گی، مگر اس کے علاوہ مختصر الفاظ میں بھی پڑھی جاسکتی ہے، جیسا کہ تمام صحابہ کرام جب رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرتے یا آپ کا نام لیتے تھے تو ”صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ“ کے الفاظ ادا کرتے تھے، جیسا کہ تمام کتب احادیث کی تمام احادیث سے ثابت ہے۔ اگر ہر محدث نے اپنے استاذ سے حتیٰ کہ تابعی نے صحابی سے یہ الفاظ نہ سنے ہوتے تو وہ نقل نہ فرماتے، کیونکہ وہ نقل میں نہایت امین تھے، بلکہ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گزرے ہوئے کسی وقت کو یاد کرتے تو یہی مختصر صلاۃ پڑھتے تھے۔ چناچہ بخاری میں ہے کہ اسماء بنت ابی بکر ؓ کے مولیٰ عبداللہ نے بیان کیا : (أَنَّہُ کَانَ یَسْمَعُ أَسْمَاءَ تَقُوْلُ کُلَّمَا مَرَّتْ بالْحَجُوْنِ : صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مُحَمَّدٍ لَقَدْ نَزَلْنَا مَعَہُ ہَاہُنَا، وَ نَحْنُ یَوْمَءِذٍ خِفَافٌ) [ بخاري، العمرۃ، باب متی یحل المعتمر ؟ : 1796 ] ”اسماء ؓ جب بھی حجون کے پاس سے گزرتیں تو یہ کہتیں ”صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مُحَمَّدٍ“ ہم آپ کے ساتھ یہاں اترے تھے، ان دنوں ہم ہلکی پھلکی تھیں۔“ اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کے ذکر خیر کے وقت ”صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ“ کے الفاظ پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ البتہ رسول اللہ ﷺ سے خطاب کے صیغے کے ساتھ ”الصلاۃ“ کا لفظ، مثلاً ”اَلصَّلَاۃُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ !“ رسول اللہ ﷺ سے یا کسی صحابی سے ثابت نہیں، کیونکہ مخلوق کے پاس صلاۃ (رحمت و برکت) ہے ہی نہیں، اس لیے وہ اللہ تعالیٰ ہی سے اسے نازل کرنے کی دعا کرسکتے ہیں۔ 3 نبی ﷺ پر صلاۃ کی فضیلت اور نہ پڑھنے کی وعید میں بہت سی احادیث مروی ہیں، یہاں دو حدیثیں نقل کی جاتی ہیں : 1 عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا یَقُوْلُ ثُمَّ صَلُّوْا عَلَيَّ فَإِنَّہُ مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ صَلَاۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا) [ مسلم، الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذن۔۔ : 384 ] ”جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جیسے وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر صلاۃ پڑھو، کیونکہ جو مجھ پر ایک بار صلاۃ پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس پر دس دفعہ صلاۃ بھیجتا ہے۔“ 2 ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ یَذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْہِ وَ لَمْ یُصَلُّوْا عَلٰی نَبِیِّہِمْ إِلاَّ کَانَ عَلَیْہِمْ تِرَۃً فَإِنْ شَاءَ عَذَّبَہُمْ وَ إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَہُمْ) [ ترمذي، الدعوات، باب ما جاء في القوم یجلسون۔۔ : 3380، و قال الألباني صحیح ] ”کوئی قوم کسی مجلس میں نہیں بیٹھی جس میں انھوں نے نہ اللہ کا ذکر کیا اور نہ اپنے نبی پر صلاۃ بھیجی، مگر وہ (مجلس) قیامت کے دن ان کے لیے باعث حسرت ہوگی، پھر اگر اس نے چاہا تو انھیں سزا دے گا اور اگر چاہا تو انھیں بخش دے گا۔“
Top