Al-Quran-al-Kareem - Faatir : 22
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ
وَمَا يَسْتَوِي : اور نہیں برابر الْاَحْيَآءُ : زندے وَلَا : اور نہ الْاَمْوَاتُ ۭ : مردے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُسْمِعُ : سنا دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ ۚ : جس کو وہ چاہتا ہے وَمَآ اَنْتَ : اور تم نہیں بِمُسْمِعٍ : سنانے والے مَّنْ : جو فِي الْقُبُوْرِ : قبروں میں
اور نہ زندے برابر ہیں اور نہ مردے۔ بیشک اللہ سنا دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور تو ہرگز اسے سنانے والا نہیں جو قبروں میں ہے۔
وَمَا يَسْتَوِي الْاَحْيَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ۭ : یہ ایمان لانے والوں کی اور ایمان نہ لانے والوں کی مثال ہے کہ ایمان لانے والے زندوں کی طرح ہیں اور ایمان نہ لانے والے مردوں کی طرح۔ ابن کثیر ؓ نے فرمایا، جس طرح یہ باہم متضاد اور مختلف چیزیں برابر نہیں ہیں کہ اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں، بلکہ دونوں کے درمیان بہت سا فرق اور بعد ہے اور جس طرح اندھیرے اور روشنی برابر نہیں اور سایہ اور لو برابر نہیں، اسی طرح زندہ اور مردے برابر نہیں۔ یہ مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے بیان فرمائی ہے کہ وہ زندہ ہیں اور کافروں کے لیے کہ وہ مردہ ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا يَّمْشِيْ بِهٖ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۭ) [ الأنعام : 122 ] ”اور کیا وہ شخص جو مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایسی روشنی بنادی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے، اس شخص کی طرح ہے جس کا حال یہ ہے کہ وہ اندھیروں میں ہے، ان سے کسی صورت نکلنے والا نہیں۔“ اور فرمایا : (مَثَلُ الْفَرِيْقَيْنِ كَالْاَعْمٰى وَالْاَصَمِّ وَالْبَصِيْرِ وَالسَّمِيْعِ ۭ هَلْ يَسْتَوِيٰنِ) [ ھود : 24 ] ”دونوں گروہوں کی مثال اندھے اور بہرے اور دیکھنے والے اور سننے والے کی طرح ہے، کیا یہ دونوں مثال میں برابر ہیں ؟“ چناچہ مومن سننے اور دیکھنے والا ہے، دنیا اور آخرت کے اندر روشنی میں صراط مستقیم پر چلتا ہے، یہاں تک کہ یہ سفر اسے سایوں اور چشموں والی جنتوں کے ٹھکانے میں پہنچا دیتا ہے اور کافر اندھا اور بہرا ہے، اندھیروں میں چلتا ہے، ان سے کسی طرح نہیں نکلتا۔ دنیا اور آخرت میں اپنی سرکشی اور گمراہی میں بھٹکتا پھرتا ہے، یہاں تک کہ یہ سفر اسے جہنم کی لو اور گرم پانی تک پہنچا دیتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَّظِلٍّ مِّنْ يَّحْمُوْمٍ لَّا بَارِدٍ وَّلَا كَرِيْمٍ) [ الواقعۃ : 43، 44 ] ”اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں ہوں گے۔ جو نہ ٹھنڈا ہے اور نہ باعزت۔“ اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚ : سنانے کا مطلب سوچنے، سمجھنے اور قبول کرنے کی توفیق کے ساتھ سنانا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیّت اور چاہنے کی تو بات ہی دوسری ہے، وہ جسے چاہے سنا دے، چاہے تو بےجان پتھروں کو سنا دے، کسی اور میں یہ قدرت نہیں، نہ یہ رسول کے بس کا کام ہے کہ جن لوگوں کے دل مردہ ہوچکے ہوں ان کے دلوں میں اپنی بات اتار سکے اور جو بات سننا ہی نہ چاہتے ہوں ان کے بہرے کانوں کو حق کی آواز سنا سکے، وہ تو انھی کو سنا سکتا ہے جو معقول بات سننے اور اس پر غور کے لیے آمادہ ہوں۔ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ : یہ مشرکین کی مثال ہے کہ وہ مردوں کی طرح ہیں جو سنتے نہیں، یعنی جس طرح تیرے بس میں یہ بات نہیں کہ تو قبروں میں دفن مردوں کو اپنی بات سنا سکے اسی طرح جن لوگوں کے دل مردہ ہوچکے ہیں تو انھیں بھی اللہ کی آیات نہیں سنا سکتا، نہ انھیں راہ راست پر لاسکتا ہے۔ یہ آیت مردوں کے نہ سننے کی بھی واضح دلیل ہے۔ دیکھیے سورة نمل (80، 81)۔
Top