Al-Quran-al-Kareem - Faatir : 2
مَا یَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا١ۚ وَ مَا یُمْسِكْ١ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
مَا يَفْتَحِ : جو کھول دے اللّٰهُ : اللہ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے مِنْ رَّحْمَةٍ : رحمت سے فَلَا مُمْسِكَ : تو بند کرنے والا انہیں لَهَا ۚ : اس کا وَمَا يُمْسِكْ ۙ : اور جو وہ بند کردے فَلَا مُرْسِلَ : تو کوئی بھیجنے والا نہیں لَهٗ : اس کا مِنْۢ بَعْدِهٖ ۭ : اس کے بعد وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
جو کچھ اللہ لوگوں کے لیے رحمت میں سے کھول دے تو اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جو بند کر دے تو اس کے بعد اسے کوئی کھولنے والا نہیں اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ للنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ۔۔ : اس آیت سے مقصود بھی مشرکین کی اس غلط فہمی کا رد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کوئی انھیں اولاد، روزی یا کوئی نعمت دے سکتا ہے یا روک سکتا ہے۔ رحمت سے مراد وہ نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہے، چاہے وہ مادی ہو جیسے بارش، روزی، اولاد اور صحت وغیرہ، یا معنوی اور روحانی ہو، جیسے علم و حکمت، ایمان و اسلام، بعثت انبیاء، دعا کی قبولیت اور توبہ کی توفیق وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ بندوں کو جو بھی نعمت حاصل ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ وہ اپنی نعمت کسی کو دینا چاہے تو کوئی اسے روکنے والا نہیں اور روکنا چاہے تو کوئی اسے دینے والا نہیں۔ مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ہر فرض نماز کے بعد کہا کرتے تھے : (لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ ، وَ لَہُ الْحَمْدُ ، وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْءٍ قَدِیْرٌ، اللّٰہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ ، وَ لَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ ، وَ لاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ) [ بخاري، الأذان، باب الذکر بعد الصلاۃ : 844 ] ”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کے لیے سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔ اے اللہ ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روک دے وہ دینے والا کوئی نہیں اور تیرے مقابلے میں کسی شان والے کو اس کی شان کوئی کام نہیں دیتی۔“ یہ مضمون قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورة انعام (17) ، یونس (107) اور سورة زمر (38)۔ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ : خبر پر الف لام لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا۔ یہ پہلے جملے کی علت ہے کہ وہی ایسا زبردست غالب ہے کہ اس کے حکم کو کوئی روک نہیں سکتا اور ایسا کمال حکمت والا ہے جس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں، کسی اور میں یہ صفات ہیں ہی نہیں، تو پھر کون ہے جو اس کے کھولے ہوئے کو بند کرسکے یا اس کے بند کیے ہوئے کو کھول سکے ؟
Top