Al-Quran-al-Kareem - Az-Zumar : 24
اَفَمَنْ یَّتَّقِیْ بِوَجْهِهٖ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ قِیْلَ لِلظّٰلِمِیْنَ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ
اَفَمَنْ : کیا۔ پس۔ جو يَّتَّقِيْ : بچاتا ہے بِوَجْهِهٖ : اپنا چہرہ سُوْٓءَ الْعَذَابِ : برے عذاب سے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ : قیامت کے دن وَقِيْلَ : اور کہا جائے گا لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو ذُوْقُوْا : تم چکھو مَا : جو كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ : تم کماتے (کرتے) تھے
تو کیا وہ شخص جو قیامت کے دن اپنے چہرے کے ساتھ بد ترین عذاب سے بچے گا (وہ جنتی جیسا ہوسکتا ہے ؟) اور ظالموں سے کہا جائے گا چکھو جو تم کمایا کرتے تھے۔
اَفَمَنْ يَّتَّـقِيْ بِوَجْهِهٖ“ کی خبر محذوف ہے (جیسا کہ اس سے پہلے آیت : 19 میں گزر چکا ہے) : ”أَيْ کَمَنْ ھُوَ آمِنٌ مِنَ الْعَذَابِ ، أَوْ کَمَنْ ھُوَ مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ“ یعنی تو کیا وہ شخص جو قیامت کے دن اپنے چہرے کے ساتھ بدترین عذاب سے بچے گا، وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو عذاب سے بےخوف ہوگا، یا جو اہل جنت سے ہوگا ؟ جیسا کہ فرمایا : (اَفَمَنْ يُّلْقٰى فِي النَّارِ خَيْرٌ اَمْ مَّنْ يَّاْتِيْٓ اٰمِنًا) [ حٰم السجدۃ : 40 ] ”تو کیا وہ شخص جو آگ میں پھینکا جائے بہتر ہے، یا جو امن کی حالت میں قیامت کے دن آئے ؟“ مزید دیکھیے سورة قمر (48) اور سورة ملک (22)۔ 3 دنیا میں آدمی کو آگ یا کسی بھی تکلیف دہ چیز کا سامنا ہو تو وہ اپنے چہرے کو اس سے بچانے کے لیے ہاتھوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ قیامت کے دن چونکہ جہنمیوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں گے، اس لیے وہ عذاب سے بچنے کے لیے چار و ناچار چہروں ہی کو ڈھال بنائیں گے، یعنی بد ترین عذاب کے تھپیڑے سیدھے ان کے منہ پر پڑیں گے۔ وَقِيْلَ للظّٰلِمِيْنَ ذُوْقُوْا۔۔ : یعنی وہ اپنے چہرے کے ساتھ عذاب سے بچیں گے، مگر اس سے انھیں کچھ بچاؤ حاصل نہ ہوگا، بلکہ آگ انھیں ہر جانب سے ڈھانپ لے گی۔ آگے یہ کہنے کے بجائے کہ ”ان سے کہا جائے گا“ فرمایا ”ان ظالموں سے کہا جائے گا“ مقصد یہ بات واضح کرنا ہے کہ ان کے عذاب کا باعث ان کا ظلم ہوگا اور ان سے کہا جائے گا کہ اپنی کمائی کا وبال چکھو۔
Top