Al-Quran-al-Kareem - Az-Zumar : 30
اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ٘
اِنَّكَ : بیشک تم مَيِّتٌ : مرنے والے وَّاِنَّهُمْ : ار بیشک وہ مَّيِّتُوْنَ : مرنے والے
بیشک تو مرنے والا ہے اور بیشک وہ بھی مرنے والے ہیں۔
اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّيِّتُوْن : یعنی اگر یہ نہیں مانتے تو نہ مانیں، ہمیشہ نہ تجھے رہنا ہے نہ ان کو، یقیناً تو مرنے والا ہے اور یقیناً وہ بھی مرنے والے ہیں۔ اس میں نبی ﷺ کے لیے وعدہ اور بشارت ہے کہ آپ کی دنیا کی محنت و مشقت اور تمام رنج ختم ہونے والے ہیں اور آپ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے اور ہمیشہ کی راحت و آرام والی جنت میں جانے والے ہیں، اور کافروں کے لیے وعید ہے کہ ان کی مہلت ختم ہونے والی ہے اور وہ اپنے رب کے سامنے پیش ہو کر اپنے کفر و شرک کا حساب دینے والے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں نبی ﷺ اور تمام مسلمانوں کو ان کی موت یاد دلا کر اس کی تیاری کی یاد دہانی بھی ہے۔ 3 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فوت ہوجائیں گے، تاکہ آپ کی موت کے متعلق لوگوں میں اختلاف واقع نہ ہو اور وہ آپ کی پرستش نہ کرنے لگیں، جیسا کہ پہلی امتوں میں اپنے انبیاء کی وفات کے متعلق اختلاف واقع ہوا۔ چناچہ نبی ﷺ کی وفات پر اکثر لوگوں نے تسلیم نہ کیا کہ آپ ﷺ فوت ہوچکے ہیں، جن میں عمر بن خطاب ؓ بھی شامل تھے۔ اس موقع پر ابوبکر ؓ نے یہ آیت اور سورة آل عمران کی آیت (144) : (وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَـيْـــًٔـا) پڑھ کر اعلان کیا کہ محمد ﷺ فوت ہوگئے۔ [ دیکھیے بخاري، فضائل أصحاب النبي ﷺ ، باب : 3667، 3668] سورة آل عمران کی آیت (144) کی تفسیر بھی دیکھ لیں۔ اس پر عمر ؓ اور دوسرے صحابہ نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا اور تمام صحابہ کا اتفاق ہوگیا کہ آپ ﷺ فوت ہوگئے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے آپ ﷺ کو غسل اور کفن دے کر دفن کردیا، ورنہ وہ آپ ﷺ کو زندہ کبھی دفن نہ کرتے۔ افسوس ! قرآن کی واضح آیات اور صحابہ کرام ؓ کے اجماع کے باوجود کچھ لوگوں کو اصرار ہے کہ نبی ﷺ اب بھی دنیوی زندگی کے ساتھ زندہ ہیں۔ چناچہ ایک صاحب لکھتے ہیں : ”انبیاء کی موت ایک آن کے لیے ہوتی ہے، پھر انھیں حیات عطا فرمائی جاتی ہے۔“ سوال یہ ہے کہ اگر اس حیات سے مراد برزخ کی زندگی ہے تو وہ تو نیک و بد سب کو عطا ہوتی ہے اور برزخ میں جزا و سزا کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے انبیاء کی شان سب سے اونچی ہے اور ان کو عطا ہونے والے انعامات بھی بےحساب ہیں، اس زندگی سے کسی کو بھی انکار نہیں، مگر اس کے لیے موت ضروری ہے، کیونکہ یہ موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔ لیکن اگر ایک آن کے بعد انھیں دنیوی زندگی عطا کردی جاتی ہے، تو پھر انبیاء کے جاں نثار صحابہ انھیں دفن کیوں کردیتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ سوموار کے دن فوت ہوئے اور بدھ کے دن آپ کو دفن کیا گیا، تو کیا اس وقت تک وہ آن پوری نہ ہوئی تھی اور صحابہ کو معلوم نہ ہوا تھا کہ آپ کو پھر حیات عطا ہوچکی ہے۔ کیا انھوں نے یہ جانتے ہوئے بھی آپ ﷺ کے دفن کرنے پر اتفاق کرلیا اور آپ ﷺ کو زندہ دفن کردیا اور رسول ﷺ بھی زندہ ہونے کے باوجود خاموشی کے ساتھ دفن ہوگئے ؟ (فَمَالِ هٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا) [ النساء : 78 ] ”تو ان لوگوں کو کیا ہے کہ قریب نہیں ہیں کہ کوئی بات سمجھیں۔“
Top