Al-Quran-al-Kareem - Az-Zumar : 47
وَ لَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖ مِنْ سُوْٓءِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ بَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مَا لَمْ یَكُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّ : ہو لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جنہوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا مَا فِي الْاَرْضِ : اور جو کچھ زمین میں جَمِيْعًا : سب کا سب وَّمِثْلَهٗ : اور اتنا ہی مَعَهٗ : اس کے ساتھ لَافْتَدَوْا : بدلہ میں دیں وہ بِهٖ : اس کو مِنْ : سے سُوْٓءِ : برے الْعَذَابِ : عذاب يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ : روز قیامت وَبَدَا لَهُمْ : اور ظاہر ہوجائے گا ان پر مِّنَ اللّٰهِ : اللہ (کی طرف) سے مَا : جو لَمْ يَكُوْنُوْا : نہ تھے وہ يَحْتَسِبُوْنَ : گمان کرتے
اور اگر واقعی ان لوگوں کے لیے جنھوں نے ظلم کیا، وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اتنا اور بھی ہو تو قیامت کے دن برے عذاب سے (بچنے کے لیے) وہ ضرور اسے فدیے میں دے دیں، اور ان کے لیے اللہ کی طرف سے وہ کچھ سامنے آجائے گا جس کا وہ گمان نہیں کیا کرتے تھے۔
وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا۔۔ : ظلم کرنے والوں سے مراد مشرک ہیں، انھی کا ذکر مسلسل آ رہا ہے۔ مشرکین کے اقوال و احوال کا ذکر اور ان کا رد کرنے کے بعد ان کا انجام بیان فرمایا کہ آخرت کے دن اگر ان کے پاس وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اتنا اور بھی ہو تو قیامت کے دن کے برے عذاب سے بچنے کے لیے اسے ضرور ہی فدیے میں دے دیں گے اور ان کی خواہش ہوگی کہ یہ سب کچھ دے کر ان کی جان عذاب سے بچ جائے۔ (دیکھیے یونس : 54) مگر ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی۔ دیکھیے سورة بقرہ (48 اور 123) ، آل عمران (91) ، مائدہ (36، 37) ، انعام (70) ، رعد (18) اور سورة حدید (15)۔ وَبَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ۔۔ : یعنی جس طرح جنت والوں کو وہ نعمتیں ملیں گی جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی آدمی کے دل میں ان کا خیال آیا (دیکھیے سجدہ : 17) ایسے ہی کفار کے سامنے اللہ کی طرف سے ایسے ایسے عذاب آئیں گے جن کا وہ گمان بھی نہ کرتے تھے۔ ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنے متعلق جو جھوٹی امیدیں رکھے ہوئے تھے اور اپنے حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کی دستگیری کے متعلق ان کے جو گمان تھے اس دن ان کے سامنے اللہ کی طرف سے اس کے برعکس وہ کچھ پیش آئے گا جس کا وہ گمان بھی نہیں کرتے تھے اور جن اعمال کو وہ نیکیاں سمجھتے تھے وہ برائیوں کی صورت میں ان کے سامنے ظاہر ہوں گے۔ سفیان ثوری سے مروی ہے کہ انھوں نے یہ آیت پڑھی اور فرمایا : ”وَیْلٌ لِأَھْلِ الرِّیَاءِ ، وَیْلٌ لِأَھْلِ الرِّیَاءِ“ ”دکھاوے والوں کے لیے ہلاکت ہے، دکھاوے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔“ (الوسیط) کیونکہ قیامت کے دن انھیں امید کے برعکس معاملہ پیش آئے گا، جیسا کہ ریا کار عالم، شہید اور سخی والی حدیث میں مذکور ہے۔
Top