Al-Quran-al-Kareem - Az-Zumar : 58
اَوْ تَقُوْلَ حِیْنَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِیْ كَرَّةً فَاَكُوْنَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ
اَوْ : یا تَقُوْلَ : وہ کہے حِيْنَ : جب تَرَى : تو دیکھے الْعَذَابَ : عذاب لَوْ اَنَّ : کاش اگر لِيْ : میرے لیے كَرَّةً : دوبارہ فَاَكُوْنَ : تو میں ہوجاؤں مِنَ : سے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکو کار (جمع)
یا کہے جب وہ عذاب دیکھے کاش ! واقعی میرے لیے ایک بار لوٹنا ہو تو میں نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہوجاؤں۔
اَوْ تَـقُوْلَ حِيْنَ تَرَى الْعَذَابَ۔۔ : پچھلی آیت کے ضمن میں کفار کے اللہ تعالیٰ پر اس جھوٹ کا ذکر تھا کہ اس نے انھیں ہدایت نہیں دی، اس آیت کے ضمن میں ان کے ایک اور جھوٹ کا ذکر ہے کہ اس نے انھیں نیک بننے کے لیے وقت نہیں دیا، اگر انھیں دوبارہ بھیجا جائے تو وہ نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہوجائیں گے۔ چناچہ وہ عذاب دیکھ کر دنیا میں ایک دفعہ واپس جانے کی ناکام تمنا کریں گے۔ (دیکھیے انعام : 27، 28) طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ نے وہ بات جو بندے کہنے والے ہیں، ان کے کہنے سے پہلے بتادی ہے اور (دوبارہ دنیا میں بھیجے جانے کی صورت میں) وہ جو کچھ کرنے والے ہیں ان کے کرنے سے پہلے بتادیا ہے اور فرمایا : (وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ) [ فاطر : 14 ] ”اور تجھے ایک پوری خبر رکھنے والے کی طرح کوئی خبر نہیں دے گا۔“ یعنی وہ کہیں گے ”يّٰحَسْرَتٰى عَلٰي مَا فَرَّطْتُّ فِيْ جَنْۢبِ اللّٰهِ“ یا یہ کہیں گے ”لَوْ اَنَّ اللّٰهَ هَدٰىنِيْ لَكُنْتُ“ یا کہیں گے ”لَوْ اَنَّ لِيْ كَرَّةً فَاَكُوْنَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ“ ”الْمُحْسِنِيْنَ“ سے مراد ”اَلْمُھْتَدِیْنَ“ یعنی ہدایت یافتہ لوگ ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتادیا کہ اگر انھیں دوبارہ بھیجا گیا تو پھر بھی ہدایت نہیں پاسکیں گے، جیسا کہ فرمایا : (وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ) [ الأنعام : 28 ] ”اور اگر انھیں واپس بھیج دیا جائے تو ضرور پھر وہی کریں گے جس سے انھیں منع کیا گیا تھا اور بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔“ اور فرمایا : (وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ) [ الأنعام : 110 ] ”اور ہم ان کے دلوں اور ان کی آنکھوں کو پھیر دیں گے، جیسے وہ اس پر پہلی بار ایمان نہیں لائے۔“ یعنی جس طرح وہ پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے، اگر انھیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تب بھی ان کے اور ہدایت کے درمیان رکاوٹ حائل رہے گی، جیسا کہ پہلی مرتبہ حائل رہی جب وہ دنیا میں تھے۔“
Top