Al-Quran-al-Kareem - Az-Zumar : 64
قُلْ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْٓنِّیْۤ اَعْبُدُ اَیُّهَا الْجٰهِلُوْنَ
قُلْ : فرمادیں اَفَغَيْرَ اللّٰهِ : تو کیا اللہ کے سوا تَاْمُرُوْٓنِّىْٓ : تم مجھے کہتے ہو اَعْبُدُ : میں پرستش کروں اَيُّهَا : اے الْجٰهِلُوْنَ : جاہلو (جمع)
کہہ دے پھر کیا تم مجھے غیر اللہ کے بارے میں حکم دیتے ہو کہ میں (ان کی) عبادت کروں اے جاہلو !
قُلْ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْۗنِّىْٓ اَعْبُدُ : ”قل“ کے بعد جملہ ”فاء“ سے شروع ہوتا ہے، مگر ہمزہ استفہام چونکہ کلام کی ابتدا میں ہوتا ہے، اس لیے ”فاء“ کو اس کے بعد کردیا ہے، اسی طرح جملہ فعلیہ کا آغاز فعل ”تَاْمُرُوْۗنِّىْٓ“ سے ہونا تھا اور ”غَیْرَ اللّٰہِ“ کو ”اعبد“ کے بعد ہونا تھا، مگر ”غَیْرَ اللّٰہِ“ کی تحقیر کو نمایاں کرنے کے لیے اسے پہلے ذکر فرمایا۔ یعنی جب ہر چیز کا خالق اللہ ہے اور وہی ہر چیز پر نگران ہے اور اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں تو پھر کیا اس کے ہوتے ہوئے تم مجھے اس کے غیر کی عبادت کا حکم دیتے ہو، جس کے اختیار میں خود اپنا وجود بھی نہیں ؟ اَيُّهَا الْجٰهِلُوْنَ : جہل کا لفظ حلم کے مقابلے میں آتا ہے اور علم کے مقابلے میں بھی، یہاں علم کے مقابلے میں آیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ”وحدہ لا شریک لہ معبود“ ہونے کے اتنے واضح دلائل اپنے کانوں سے سننے اور آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود پتھروں، قبروں، جانوروں یا اپنے جیسی بےبس اور بےاختیار مخلوق کی عبادت کی پستی میں گرے ہوئے جاہلو ! جو نہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا کچھ علم رکھتے ہو کہ صرف اسی کی عبادت کرو، نہ رسول اللہ ﷺ کی شان سے واقف ہو کہ انھیں غیر اللہ کی عبادت کی دعوت کی جرأت کر رہے ہو اور نہ ہی اس شرف کا کچھ علم رکھتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں انسان بنا کر عطا کیا ہے کہ اتنی اونچی مخلوق ہو کر اپنے جیسی یا اپنے سے بھی ادنیٰ مخلوق کی عبادت کر رہے ہو۔ اقبال نے کہا ہے ؂ آدم از بےبصری بندگئ آدم کرد من نہ دیدم کہ سگے پیش سگے سر خم کرد ”آدمی بےسمجھی کی وجہ سے آدمی کی بندگی کرنے لگا۔ میں نے تو یہ بھی نہیں دیکھا کہ کسی کتے نے کسی کتے کے آگے سر جھکایا ہو۔“
Top