Al-Quran-al-Kareem - Az-Zumar : 73
وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِیْنَ
وَسِيْقَ : ہنکا (لے جایا) جائے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتَّقَوْا : وہ ڈرے رَبَّهُمْ : اپنا رب اِلَى الْجَنَّةِ : جنت کی طرف زُمَرًا ۭ : گروہ در گروہ حَتّىٰٓ : یہاں تک کہ اِذَا : جب جَآءُوْهَا : وہ وہاں آئیں گے وَفُتِحَتْ : اور کھول دیے جائیں گے اَبْوَابُهَا : اس کے دروازے وَقَالَ : اور کہیں گے لَهُمْ : ان سے خَزَنَتُهَا : اس کے محافظ سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكُمْ : تم پر طِبْتُمْ : تم اچھے رہے فَادْخُلُوْهَا : سو اس میں داخل ہو خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہنے کو
اور وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈر گئے، گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے، اس حال میں کہ اس کے دروازے کھول دیے گئے ہوں گے اور اس کے نگران ان سے کہیں گے تم پر سلام ہو، تم پاکیزہ رہے، پس اس میں داخل ہوجاؤ، ہمیشہ رہنے والے۔
وَسِيْقَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۭ۔۔ : کفار کے انجام سے ڈرانے کے بعد متقین کے حسن انجام کی بشارت دی، کیونکہ قرآن مجید میں یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا) [ مریم : 97 ] ”تاکہ تو اس کے ساتھ متقی لوگوں کو خوش خبری دے اور اس کے ساتھ ان لوگوں کو ڈرائے جو سخت جھگڑا لو ہیں۔“ 3 یہاں ایک سوال ہے کہ ”سَاقَ یَسُوْقُ“ میں سختی کے ساتھ ہانکنے کا مفہوم پایا جاتا ہے، جیسا کہ اوپر کی آیات میں کفار کو سختی سے ہانک کر جہنم کی طرف لے جانے کا ذکر ہے، تو یہاں متقین کو جنت کی طرف لے جانے کے لیے یہ لفظ کیوں استعمال کیا گیا ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں یہ لفظ پہلے ”سیق“ کے ساتھ مشاکلت کے طور پر استعمال ہوا ہے، ورنہ یہاں اس لفظ سے مراد سختی سے لے جانا یا ہانکنا نہیں۔ اسے تجرید کہتے ہیں، یہاں اس سے مراد صرف لے جانا ہے۔ مقصد دونوں کو لے جانے کا باہمی فرق واضح کرنا ہے کہ اگرچہ دونوں کو لے جایا جائے گا، مگر کفار کو لے جانے میں سختی، دھکے اور اہانت و تذلیل ہوگی، جب کہ مومنوں کو اکرام کے ساتھ لے جایا جائے گا، جس کی دلیل بعد میں آنے والے الفاظ ’ وَفُتِحَتْ اَبْوَابُهَا ‘ اور ”وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَـــتُهَا ہیں۔ زُمَرًا : یہ جماعتیں درجات کے لحاظ سے ہوں گی، چناچہ سب سے بلند درجات والے پہلے داخل ہوں گے۔ (دیکھیے سورة واقعہ : 10) مثلاً انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین، اسی طرح درجہ بدرجہ جماعتیں جنت میں داخل ہوں گی۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (أَوَّلُ زُمْرَۃٍ تَلِجُ الْجَنَّۃَ صُوْرَتُہُمْ عَلٰی صُوْرَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ ، لَا یَبْصُقُوْنَ فِیْہَا وَ لاَ یَمْتَخِطُوْنَ وَ لَا یَتَغَوَّطُوْنَ ، آنِیَتُہُمْ فِیْہَا الذَّہَبُ ، أَمْشَاطُہُمْ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ ، وَ مَجَامِرُہُمُ الْأُلُوَّۃُ ، وَرَشْحُہُمُ الْمِسْکُ ، وَ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ زَوْجَتَانِ ، یُرٰی مُخُّ سُوْقِہِمَا مِنْ وَرَاء اللَّحْمِ ، مِنَ الْحُسْنِ ، لَا اخْتِلاَفَ بَیْنَہُمْ وَ لَا تَبَاغُضَ ، قُلُوْبُہُمْ قَلْبٌ وَاحِدٌ، یُسَبِّحُوْنَ اللّٰہَ بُکْرَۃً وَ عَشِیًّا) [ بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ و أنھا مخلوقۃ : 3245 ] ”پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہوگا ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوں گے، وہ نہ اس میں تھوکیں گے، نہ رینٹ پھینکیں گے اور نہ پاخانہ کریں گے۔ اس میں ان کے برتن سونے کے ہوں گے، ان کی کنگھیاں سونے اور چاندی کی ہوں گی اور ان کی انگیٹھیاں ”اُلُوَّہ“ (جل کر خوشبو دینے والی ایک لکڑی) کی ہوں گی، ان کا پسینہ کستوری ہوگا، ان میں سے ہر ایک کی دو بیویاں وہ ہوں گی جن کی پنڈلیوں کا مغز حسن کی وجہ سے گوشت کے پیچھے سے دکھائی دے گا، ان میں نہ کوئی اختلاف ہوگا، نہ ایک دوسرے سے کوئی بغض ہوگا، ان کے دل ایک دل ہوں گے، صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کریں گے۔“ صحیح مسلم میں اسی حدیث میں ہے : (أَوَّلُ زُمْرَۃٍ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِيْ عَلٰی صُوْرَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ عَلٰی أَشَدِّ نَجْمٍ فِی السَّمَاءِ إِضَاءَ ۃً ثُمَّ ہُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ مَنَازِلُ) [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمہا و أھلھا، باب أول زمرۃ تدخل الجنۃ۔۔ : 16؍2834 ] ”میری امت کی پہلی جماعت جو جنت میں داخل ہوگی ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح ہوں گے، پھر جو ان کے بعد جائیں گے وہ آسمان کے سب سے زیادہ روشن ستارے کی طرح ہوں گے، پھر اس کے بعد ان کے مختلف مراتب ہوں گے۔“ 3 جنتیوں کے گروہوں کی ایک تقسیم مختلف صالح اعمال میں خصوصیت کی بنا پر ہوگی، جن کی بنا پر انھیں مختلف دروازوں سے بلایا جائے گا۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا : (مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَیْنِ مِنْ شَيْءٍ مِنَ الْأَشْیَاءِ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ دُعِيَ مِنْ أَبْوَابِ یَعْنِي الْجَنَّۃَ یَا عَبْدَ اللّٰہِ ! ہٰذَا خَیْرٌ، فَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الصَّلاَۃِ دُعِيَ مِنْ بَاب الصَّلَاۃِ ، وَ مَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الْجِہَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِہَادِ ، وَ مَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الصَّدَقَۃِ دُعِيَ مِنْ بَاب الصَّدَقَۃِ ، وَ مَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الصِّیَامِ دُعِيَ مِنْ بَاب الصِّیَامِ ، وَ بَاب الرَّیَّانِ ، فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ مَا عَلٰی ہٰذَا الَّذِیْ یُدْعٰی مِنْ تِلْکَ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُوْرَۃٍ ، وَ قَالَ ہَلْ یُدْعٰی مِنْہَا کُلِّہَا أَحَدٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! ؟ قَالَ نَعَمْ ، وَ أَرْجُوْ أَنْ تَکُوْنَ مِنْہُمْ یَا أَبَا بَکْرٍ !) [ بخاري، باب فضائل أصحاب النبي ﷺ ، باب : 3666 ] ”جو شخص کسی چیز کا ایک جوڑا اللہ کے راستے میں خرچ کرے گا اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا، اے اللہ کے بندے ! یہ خیر ہے۔ تو جو شخص نماز والوں سے ہوگا اسے نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو جہاد والوں سے ہوگا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو صدقہ والوں سے ہوگا اسے صدقہ کے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو روزے والوں سے ہوگا اسے روزے کے دروازے اور باب الریان (سیرابی کے دروازے) سے بلایا جائے گا۔“ تو ابوبکر ؓ نے کہا : ”جس شخص کو ان دروازوں سے بلایا جائے اسے کوئی ضرورت تو نہیں، مگر یا رسول اللہ ! کیا کسی کو ان تمام دروازوں سے بھی بلایا جائے گا ؟“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”ہاں ! اور میں امید کرتا ہوں کہ اے ابوبکر ! تم بھی ان میں سے ہو گے۔“ ۭ حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْهَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُهَا : یہاں ”وَفُتِحَتْ اَبْوَابُهَا“ سے پہلے ”واؤ“ لانے کا مطلب یہ ہے کہ متقین کی آمد پر جنت کے دروازے پہلے ہی کھول دیے گئے ہوں گے، جیسے کسی معظم و مکرم مہمان کے انتظار میں پہلے ہی دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں۔ اسی کو دوسری آیت میں صراحت کے ساتھ فرمایا : (جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَةً لَّهُمُ الْاَبْوَابُ) [ ص : 50 ] ”ہمیشہ رہنے کے باغات، اس حال میں کہ ان کے لیے دروازے پورے کھولے ہوئے ہوں گے۔“ جنت کے آٹھ دروازے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (فِي الْجَنَّۃِ ثَمَانِیَۃُ أَبْوَابٍ ، فِیْہَا بَابٌ یُسَمَّی الرَّیَّانَ لاَ یَدْخُلُہُ إِلاَّ الصَّاءِمُوْنَ) [ بخاري، بدء الخلق، باب صفۃ أبواب الجنۃ : 3257 ] ”جنت کے آٹھ دروازے ہیں، ایک دروازے کا نام ریّان ہے، اس میں سے صرف خاص روزے دار داخل ہوں گے۔“ وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَـــتُهَا سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ۔۔ : کفار کے برعکس متقین کی جنت کے پاس آمد پر اس کے دربان فرشتے نہایت محبت کے ساتھ ان کا اکرام اور عزت افزائی کرتے ہوئے انھیں تین باتیں کہیں گے، پہلی یہ کہ تم پر سلام ہے، یعنی اب تم ہر تکلیف، غم اور خوف سے سلامت رہو گے۔ دوسری بات ”طِبْتُمْ“ ہے، اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ تم اس سے پہلے دنیا میں کفر و شرک سے پاک رہے، سو اس میں داخل ہوجاؤ ہمیشہ رہنے والے، دوسرا یہ کہ اب تم ہر گناہ اور بری بات سے پاک ہوگئے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (یَخْلُصُ الْمُؤْمِنُوْنَ مِنَ النَّارِ ، فَیُحْبَسُوْنَ عَلٰی قَنْطَرَۃٍ بَیْنَ الْجَنَّۃِ وَ النَّارِ ، فَیُقْتَصُّ لِبَعْضِہِمْ مِنْ بَعْضٍ ، مَظَالِمُ کَانَتْ بَیْنَہُمْ فِي الدُّنْیَا، حَتّٰی إِذَا ہُذِّبُوْا وَ نُقُّوْا أُذِنَ لَہُمْ فِيْ دُخُوْلِ الْجَنَّۃِ) [ بخاري، الرقاق، باب القصاص یوم القیامۃ : 6535 ] ”مومن آگ سے بچ کر نکلیں گے تو انھیں جنت اور آگ کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا، پھر انھیں ایک دوسرے سے ان زیادتیوں کا بدلا دلایا جائے گا جو دنیا میں آپس میں ہوئیں، پھر جب خوب پاک صاف ہوجائیں گے تو انھیں جنت میں داخلے کی اجازت ملے گی۔“ تیسری بات یہ کہیں گے کہ چونکہ تم پاک ہوچکے، سو اب تم جنت میں ہمیشہ رہنے والے بن کر داخل ہوجاؤ۔ جنت میں داخلہ ہی بہت بڑی بشارت ہے، اس کے ساتھ ہمیشگی کی بشارت کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرمائے۔ [ آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ ] 3 کفار کے متعلق جو فرمایا : ”اِذَا جَاۗءُوْهَا“ (جب وہ اس کے پاس آئیں گے) اس شرط کی جزا ”‘ وَفُتِحَتْ اَبْوَابُهَا“ (تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے) ہے، مگر متقین کے متعلق تینوں جملے شرط کا حصہ ہیں ”‘، ”’ اِذَا جَاۗءُوْهَا“ اور ”وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَـــتُهَا“ ان کی جزا حذف کردی گئی ہے، کیونکہ اس دنیا میں انسانی فکر اس کی بلندی تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ گویا عبارت یوں ہے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے، اس حال میں کہ اس کے دروازے کھول دیے گئے ہوں گے اور اس کے نگران ان سے کہیں گے تم پر سلام ہو، تم پاکیزہ رہے، پس اس میں داخل ہوجاؤ، پاکیزہ رہنے والے، تو مت پوچھو کہ وہ کس قدر خوش ہوں گے، کیونکہ تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ کتنی بڑی نعمت حاصل کریں گے۔
Top