Al-Quran-al-Kareem - An-Nisaa : 58
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا١ۙ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُكُمْ : تمہیں حکم دیتا ہے اَنْ : کہ تُؤَدُّوا : پہنچا دو الْاَمٰنٰتِ : امانتیں اِلٰٓى : طرف (کو) اَھْلِھَا : امانت والے وَاِذَا : اور جب حَكَمْتُمْ : تم فیصلہ کرنے لگو بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ اَنْ : تو تَحْكُمُوْا : تم فیصلہ کرو بِالْعَدْلِ : انصاف سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ نِعِمَّا : اچھی يَعِظُكُمْ : نصیحت کرتا ہے بِهٖ : اس سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے سَمِيْعًۢا : سننے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو، یقینا اللہ تمہیں یہ بہت ہی اچھی نصیحت کرتا ہے۔ بیشک اللہ ہمیشہ سے سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا۔۔ : درمیان میں کفار کے احوال اور ان کے حق میں وعید کا ذکر آگیا تھا، اب دوبارہ سلسلۂ احکام شروع ہو رہا ہے۔ یہود امانت میں خیانت کرتے اور فیصلہ میں رشوت لے کر ظلم وجور کرتے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان باتوں سے دور رہنے کا حکم دیا۔ یہاں امانت سے مراد گو ہر قسم کی امانت ہے، اس کا تعلق مذہب و دیانت سے ہو یا دنیاوی معاملات سے، لیکن یہود حق کو چھپا کر علمی امانت میں خیانت کے مرتکب بھی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے منافق کی تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس کی خلاف ورزی کرلے۔ امانت میں خیانت اتنا بڑا گناہ ہے کہ شہادت سے بھی معاف نہیں ہوتا۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ خیبر سے واپسی پر رسول اللہ ﷺ وادی القریٰ کی طرف روانہ ہوئے۔ جب وہاں پہنچے تو آپ ﷺ کا غلام ”مدعم“ آپ ﷺ کی اونٹنی سے پالان اتار رہا تھا کہ اسے ایک اندھا تیر لگا جس نے اسے قتل کردیا لوگوں نے کہا اسے جنت مبارک ہو تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ چادر جو اس نے خیبر کے دن غنیمتوں میں سے لی تھی جو ابھی تقسیم نہیں ہوئی تھیں اس پر آگ بن کر شعلے مار رہی ہے۔ [ صحیح بخاری، المغازی، باب غزوۃ خیبر ] شہادت سے اس گناہ کے معاف نہ ہونے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ لوگوں کے حقوق ہیں۔ عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شہید کے لیے ہر گناہ معاف کردیا جاتا ہے سوائے قرض کے۔ [ صحیح مسلم، الامارۃ، باب من قتل فی سبیل اللہ ] البتہ ایک حدیث میں ایک بشارت ہے ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص لوگوں کے اموال لے ان کی ادائیگی کا ارادہ رکھتا ہو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادا کر دے گا اور جو شخص لوگوں کے اموال لے انھیں تلف کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اللہ تعالیٰ اسے تلف کرے گا۔ [ بخاری، الاستقراض، باب من اخذ اموال الناس ] اس سے معلوم ہوا کہ اگر شہید ہونے والے کا ارادہ ادائیگی کا تھا تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ادا کر دے گا لیکن ظاہر ہے کہ خیانت والے کا تو یہ ارادہ ہوتا ہی نہیں۔ امانت میں لوگوں سے لی ہوئی امانتیں بھی شامل ہیں اور عہدوں اور مناصب کی تقسیم بھی، جب ذمہ دار شخص کو معلوم ہو کہ فلاں صاحب اس منصب کا اہل نہیں تو پھر اپنے ذاتی تعلق یا خاندانی یا کسی دنیوی مقصد کے لیے یا کوٹہ سسٹم کی وجہ سے اہل کو چھوڑ کر نااہل شخص کو وہ منصب دیا جائے تو یہ بہت بڑی خیانت ہے۔ سورة احزاب (72) سورة مومنون (8) اور سورة بقرہ آیت (283) میں بھی امانت داری کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ 2ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بالْعَدْلِ ۭ : قرآن مجید میں کئی مقامات پر عدل کی تاکید فرمائی، خواہ وہ اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو، دیکھیے سورة نساء (135) اور کسی دشمنی کی بنا پر عدل نہ کرنے سے بھی منع فرمایا۔ دیکھیے سورة مائدہ (8)۔ سورة نحل (90) اور سورة حجرات (9)۔ وہ سات خوش قسمت لوگ جنھیں روز قیامت عرش کا سایہ ملے گا، ان میں پہلا شخص عادل حکمران ہوگا۔ [ بخاری : 660 ] رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”بیشک انصاف کرنے والے جو اپنے فیصلے میں، اپنے اہل و عیال میں اور رعایا میں انصاف کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے پاس نور کے منبروں پر ہوں گے، رحمٰن عزوجل کے دائیں طرف ہوں گے اور رحمٰن کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں۔“ [ مسلم، الإمارۃ، باب فضیلۃ الأمیر العادل۔۔ : 1827، عن عبداللہ بن عمرو ؓ ] اور آپ ﷺ نے فرمایا : ”یقیناً اللہ تعالیٰ قاضی اور حاکم کے ساتھ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے اور جب وہ ظلم کرے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے۔“ [ ابن ماجہ، الأحکام، باب التغلیظ فی الحیف والرشدہ : 2312، عن عبداللہ بن اوفٰی وصححہ الالبانی ]
Top