Al-Quran-al-Kareem - An-Nisaa : 63
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللّٰهُ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ١ۗ فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ عِظْهُمْ وَ قُلْ لَّهُمْ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِیْغًا
اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَعْلَمُ اللّٰهُ : اللہ جانتا ہے مَا : جو فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں فَاَعْرِضْ : تو آپ تغافل کریں عَنْھُمْ : ان سے وَعِظْھُمْ : اور ان کو نصیحت کریں وَقُلْ : اور کہیں لَّھُمْ : ان سے فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : ان کے حق میں قَوْلًۢا بَلِيْغًا : اثر کرجانے والی بات
یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، سو تو ان سے دھیان ہٹا لے اور انھیں نصیحت کر اور ان سے ایسی بات کہہ جو ان کے دلوں میں بہت اثر کرنے والی ہو۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ۔۔ : اطاعت رسول کی دوبارہ ترغیب دی ہے۔ یعنی اللہ کے رسول دنیا میں اس لیے آتے ہیں کہ تمام معاملات میں اللہ کے حکم کے مطابق ان کی اطاعت کی جائے۔ ”باذن اللہ“ کا معنی اللہ کی توفیق و اعانت بھی کیا گیا ہے، وہ بھی درست ہے، معلوم ہوا ہر رسول واجب الاطاعت ہوتا ہے۔ وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا : اپنی جان پر ظلم کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آنا اور آپ سے استغفار کروانا آپ کی زندگی کے ساتھ خاص تھا، آپ کی وفات کے بعد کسی صحابی سے ثابت نہیں کہ وہ آپ کی قبر مبارک پر آیا ہو اور آپ سے دعا کرنے کی درخواست کی ہو۔ حافظ ابن کثیر ؓ نے یہاں ایک بدوی کی حکایت نقل کی ہے، جس نے رسول اللہ ﷺ کی قبر کے پاس آکر یہ آیت پڑھتے ہوئے کچھ شعر پڑھے اور کہا کہ میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور آپ کو سفارشی بناتا ہوں، اس پر قبر انور کے پاس بیٹھنے والے ایک شخص نے کہا، خواب میں آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا ہے : ”اس بدوی کو بخش دیا گیا ہے۔“ لیکن یہ ایک حکایت ہے جو آیت کی مناسبت سے ذکر کردی گئی ہے، یہ نہ آیت کی تفسیر ہے نہ حدیث ہے۔ الصارم المنکی (ص : 238)“ میں لکھا ہے کہ اس حکایت کی سند نہایت کمزور ہے۔ اور نبی کے خواب کے علاوہ کسی کا خواب دین میں دلیل بھی نہیں بنتا۔ آیت سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں آپ سے دعائے مغفرت کروائی جاسکتی تھی، مگر آپ کی وفات کے بعد اس آیت کی رو سے قبر پر جا کر سفارش اور دعا کی درخواست کرنا کسی طرح صحیح نہیں۔ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ : اللہ تعالیٰ کی بخشش حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ و استغفار ضروری اور کافی ہے، لیکن یہاں جو کہا گیا ہے کہ اے پیغمبر ! وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے بخشش مانگتے اور تو بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتا، تو یہ اس لیے کہ چونکہ انھوں نے جھگڑے کے فیصلے کے لیے دوسروں کی طرف رجوع کر کے آپ کی شان کے نا مناسب حرکت کی تھی، اس لیے اس کے ازالے کے لیے انھیں آپ ﷺ کے پاس آنے کی تاکید فرمائی۔
Top