Al-Quran-al-Kareem - Al-Ghaafir : 31
مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ وَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ
مِثْلَ دَاْبِ : جیسے ۔ حال قَوْمِ نُوْحٍ : قوم نوح وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ : اور عاد اور ثمود وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ۭ : ان کے بعد وَمَا اللّٰهُ يُرِيْدُ : اور اللہ نہیں چاہتا ظُلْمًا : کوئی ظلم لِّلْعِبَادِ : اپنے بندوں کیلئے
نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اور ان لوگوں کے حال کی مانند سے جو ان کے بعد تھے اور اللہ اپنے بندوں پر کسی طرح کے ظلم کا ارادہ نہیں کرتا۔
(1) مثل داب قوم نوح …:”اب یداب دآباً“ (ف) کسی کام میں مسلسل لگے رہنا۔”داب“ اصل میں عادت کو کہتے ہیں، کیونکہ اس میں ہمیشگی ہوتی ہے، پھر کسی کے حال یا معاملے کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔ یعنی میں تمہارے بارے میں ڈرتا ہوں کہ تمہارا حال قوم نوح، عاد وثمود اور ان لوگوں جیسا نہ ہو جو ان کے بعد تھے ، مثلاً قوم لوط اور قوم شعیب وغیرہ، جنہوں نے اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا اور انہیں ایذا پہنچانے کی کوشش کی تو ان پر اللہ تعالیٰ کا ایسا عذاب آیا جس نے انہیں بری طرح تباہ برباد کردیا۔ (2) وما اللہ یرید ظلماً للعباد :”ظلماً“ کی تنوین تنکیر کے لئے ہے، اس لئے ترجمہ ”کسی طرح کا ظلم“ کیا گیا ہے۔ یعنی ان اقوام پر جو عذاب آیا وہ ان کے اپنے اعمال بد کا نتیجہ تھا، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کسی طرح کے ظلم کا ارادہ نہیں کرتا تو وہ ظلم کیوں کرے گا، پھر ظلم بھی اپنے بندوں پر ؟ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (ان اللہ لایظلم الناس شیئاً کرتے ہیں۔“
Top