Al-Quran-al-Kareem - Al-Ghaafir : 54
هُدًى وَّ ذِكْرٰى لِاُولِی الْاَلْبَابِ
هُدًى : ہدایت وَّذِكْرٰى : اور نصیحت لِاُولِي الْاَلْبَابِ : عقل مندوں کے لیے
جو عقلوں والوں کے لیے ہدایت اور نصیحت تھی۔
(1) ھدی وذکری :”ھدی“ اور ”ذکری“ دونوں مصدر بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہیں، یعنی ایسی ہدایت دینے والی اور نصیحت کرنے والی کہ اس کا وجود ہی سرا سر ہدایت اور نصیحت تھا۔ ”ذکری“ کا معنی نصیحت بھی ہے۔ یاد دہانی بھی، یعنی وہ کتاب انہیں پیش آنے والے معاملات میں رہنمائی بھی کرتی تھی اور بھولی ہوئی چیزیں مثلاً موت ، قبر، آخرت اور نجت و جہنم وغیرہ یاد دلا کر نصیحت بھی کرتی تھی۔ دوسری جگہ تورات کے متعلق فرمایا :(انا انزلنا الثورۃ فیھا ھدی ونور یحکم بھا النبیون الذین اسلموا للذین ھادوا والربینون و الاحبار بما استحفظوا من کتب اللہ و کالوا علیہ شھدآء) (المائدۃ : 33) ”بیشک ہم نے تورات اتاری جس میں ہدایت اور روشنی تھی، اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے انبیاء جو فرماں بردار تھے، ان لوگوں کے لئے جو یہودی بنے اور رب والے اور علماء اس لئے کہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ بنائیگئے تھے اور وہ اس پر گواہ تھے۔“ (2) لاولی الالباب :”الالباب“ ”لب“ کی جمع ہے، عقل۔ یعنی اس کتاب سے ہدایت اور نصیحت صرف عقلوں والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ہر جگہ ”الالباب“ کا لفظ جمع ہی آیا ہے۔ یعنی اللہ کی کتاب میں ان لوگوں کے لئے ہدایت اور نصیحت نہیں جو عقل نہیں رکھتے، یا جو صرف دنیا کے ظاہری معاملات کی عقل رکھتے ہیں، جیسا کہ کفار کے متعلق فرمایا :(ولکن اکثر الناس لایعلمون یعلمون ظاھراً من الحیوۃ الدنیا ، وھم عن الاخرۃ ھم غفلون) (الروم : 86)”اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ وہ دنیا کی زندگی کے کچھ ظاہر کو جانتے ہیں اور وہ آخرت کی بھی۔ میں نے ہر جگہ قرآن کے الفاظ کے مطابق ”اولوا الالباب“ کا ترجمہ ”عقلوں والے“ کیا ہے، جب کہ عام طور پر اس کا ترجمہ ”عقلو الے“ کیا جاتا ہے۔ یقینا قرآن مجید کے الفاظ پر غور کرنے سے عجیب اسرار کھلتے ہیں۔
Top