Al-Quran-al-Kareem - Al-Ghaafir : 55
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِبْكَارِ
فَاصْبِرْ : پس آپ صبر کریں اِنَّ : بیشک وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچا وَّاسْتَغْفِرْ : اور مغفرت طلب کریں لِذَنْۢبِكَ : اپنے گناہوں کے لیے وَسَبِّحْ : اور پاکیزگی بیان کریں بِحَمْدِ رَبِّكَ : اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ بِالْعَشِيِّ : شام وَالْاِبْكَارِ : اور صبح
پس صبر کر، یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اپنے گناہ کے لیے بخشش مانگ اور دن کے پچھلے اور پہلے پہر اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر۔
(1) فاصبر ان وعد اللہ حق : موسیٰ ؑ کو فرعون اور آل فرعون کی طرف سے جو ایذائیں پہنچیں، جن پر انہوں نے صبر کیا اور اس کے انعام کے طور پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی تائید و نصرت سے نوازا، اس کے ذدکر کے بعد اب ہمارے نبی کریم ﷺ کو اور آپ ﷺ کے واسطے سے امت کے ہر آدمی کو تلقین کی جا رہی ہے کہ وہ دعوت حق میں پیش آنے والی مشکلات اور کفار کی طرف سے ملنے والیا یذاؤں پر صبر کریں، یقینا اللہ تعالیٰ کا مدد کا وعدہ حق ہے، اس لئے بےصبری یا جلد بازی مت کریں، جیسا کہ فرمایا :(فاصبر کما صبر اولوا العزم من الرسل ولا تستغجل لھم) (الاحقاف : 35) ”پس صبر کر جس طرح پختہ ارادے والے رسولوں نے صبر کیا اور ان کے لئے جلدی کا مطالبہ نہ کر۔“ (2) واستغفر لذنبک : اس میں آپ ﷺ کو اور امت کے ہر فرد کو استغفار کا حکم ہے۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے :(واللہ ! انی لاستغفر اللہ وتوب الیہ فی الیوم اکثر من سبعین مرۃ) (بخاری ، الدعوات، باب استغفار النبی ﷺ فی الیوم واللیلۃ : 6308)”اللہ کی قسم ! میں ہر روز ستر (70) سے زیادہ مرتبہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔“ یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو رسول اللہ ﷺ کے پہلے اور پچھلے گناہ معاف فرما دیئے تھے، جیسا کہ سورة فتح (2) میں ہے، پھر استغفار کا حکم کیوں دیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سورة مومن مکی سورت ہے، جو اس بشارت سے پہلے کی ہے، اس لئے اس پر یہ سوال وارد ہی نہیں ہوتا، جب کہ سورة فتح 6 ہجری میں اتری۔ البتہ سورة نصر میں مذکور آیت (3) :(فسبح بحمد ربک واستغفرہ) پر یہ سوال وارد ہوتا ہے، کیونکہ یہ سورت فتح مکہ کے بعد نبی ﷺ کی وفات کے قریب اتری۔ ام المومنین عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں (کان النبی ﷺ یکثر ان یقول فی رکوعہ وسجودہ سبحانک اللھم ربنا وبحمدک اللھم اغفر لی یتاول القرآن) (بخاری، الاذان ، باب التسبیح والدعا، فی السجود :818)”رسول اللہ ﷺ اپنے رکوع اور سجود میں کثرت سے کہا کرتے تھے :”سبحانک اللھم ربنا وبحمدک اللھم اغفرلی“”اے اللہ ! ہمارے پروردگار ! تو (ہر عیب سے) پاک ہے اور اپنی تعریف کے ساتھ، اے اللہ ! مجھے بخش دے“ آپ قرآن کے حکم پر عمل کرتے تھے۔“ جواب اس کا یہ ہے کہ ہر آدمی کا گناہ اس کے متر بےکو پیش نظر رکھ کر ہوتا ہے۔ سید الانبیاء ﷺ معمولی سی غفلت کیلئے بھی استغفار ضروری سمجھتے تھے۔ اغرمزنی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(انہ لیعان علی قلبی وانی لاستغفر اللہ فی الیوم مائۃ مرۃ) (مسلم ، الذکر والدعا، باب استحباب الاستغفار والاستکتار منہ :2802)”میرے دل پر ہلکا سا پردہ آجاتا ہے اور میں دن میں سو مرتبہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں۔“ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ”حضرت رسول خدا (ﷺ) دن میں سو سو بار گناہ سے استغفار کرتے تھے۔ ہر بندے سے تقصیر ہوتی ہے، اس کے موافق پہر کسی کو استغفار ضروری ہے۔“ (موضح) (3) بعض حضرات کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں بھی رسول اللہ ﷺ کو اپنے گناہوں سے استغفار کا حکم ہے، اس سے مراد امت کے گناہوں کے لئے استغفار ہے، مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ سورة محمد (ﷺ) میں یہ تاویل ممکن نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فاعلم انہ لا الہ الا اللہ واستغفر لذنبک و للمومنین و المومنت واللہ یعلم متقلبکم و مثولکم) (محمد : 19) ”پس جان لے کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہ کی معافی مانگ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی اور اللہ تعالیٰ تمہارے چلنے پھرنے اور تمہارے ٹھہرنے کو جانتا ہے۔“ (4) وسبح بحمد ربک بالعشی والابکار : اللہ تعالیٰ کی مدد کے وعدے کا حق دار بننے کے لئے صبر اور استغفار کے ساتھ ساتھ صبح و شام رب تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرتے رہنے کا حکم دیا۔ اس میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا بھی شامل ہے اور نماز بھی، کیونکہ صبر اور نماز ہی اللہ تعالیٰ سے استعانت کا ذریعہ ہیں، جیسا کہ فرمایا :(واستعینوا بالصبر والصلوۃ) (البقرہ : 75) ”اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو۔“ تسبیح و تحمید سے مراد نماز ہونے کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة طہ (130) کی تفسیر۔
Top