Al-Quran-al-Kareem - Al-Ghaafir : 79
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ٘
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے لَكُمُ : تمہارے لئے الْاَنْعَامَ : چوپائے لِتَرْكَبُوْا : تاکہ تم سوار ہو مِنْهَا : ان سے وَمِنْهَا : اور ان سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو
اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لیے چوپائے بنائے، تاکہ ان میں سے بعض پر تم سوار ہو اور انھی میں سے بعض کو تم کھاتے ہو۔
(1) اللہ الذی جعل لکم الانعام لترکبوا…:”جعل“ یہاں ”خلق“ کے معنی میں ہے : جیسا کہ فرمایا :(الحمد للہ الذی خلق السموت والارض وجعل الظلمت والنور) (الانعام : 1)”سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیروں اور روشنی کو بنایا۔“”الانعام“”نعم“ (نون اور عین کے فتحہ کے ساتھ) کی جمع ہے، اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکریاں، نر و مادہ دونوں۔ (دیکھیے انعام : 142، 143) یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ عموماً یہ لفظ اونٹوں پر بولا جاتا ہے۔ اس آیت میں مذکور زیادہ تر فوائد اونٹوں کے بیان ہوئے ہیں۔ ان آیات کی مفصل تفسیر کے لئے دیکھیے سورة نحل (5 تا 8، 66، 80) اور سورة مومنون (21، 22) (2) لترکبوا منھا“ میں جانوروں پر سواری کا ذکر فرمایا، پھر اس سے اگلی آیت میں کشتیوں کیساتھ ساتھ دوبارہ ان پر سواری کا ذکر فرمایا۔ بعض مفسرین نے اس میں یہ حکمت بیان فرمائی ہے کہ ”الترکبوا منھا“ میں عام شہروں اور بستیوں کے درمیان معمول کی سواری مراد ہے اور ”تحملون“ سے مراد دور دراز کے سفر ہیں۔ (ابن عطیہ) (واللہ اعلم) (3) مفسر عبدالرحمٰن گیلانی لکھتے ہیں :”کفار مکہ رسول اللہ ﷺ سے طرح سرح کے حسی معجزات کا مطالبہ کیا کرتے تھے، جس کا ایک جواب تو سابقہ آیت میں دیا گیا ہے کہ ایسا معجزہ پیش کرنا رسول کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ان آیات میں کفار کے اسی مطالبے کا دوسرا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں تمہیں اپنے دائیں بائیں، اندر باہر اور اوپر نیچے ہر طرف ہی مل سکتی ہیں۔ اگر تم سوچو تو تمہارے راہ راست کو قبول کرنے کے لئے راہنمائی ان میں بھی موجود ہے۔ مثلاً جو مویشی تم پالتے ہو ان پر بھی نظر ڈال کر دیکھ لو، ان کی ساخت اور ان کی فطرت ہی ہم نے ایسی بنادی ہے کہ وہ فوراً تمہارے تابع بن جاتے ہیں۔ پھر ان سے تم ہز اورں قسم کے فوائد حاصل کرتے ہو۔ ان کے دودھ سے بالائی، مکھن، پنیر، گھی اور لسی بناتے ہو اور یہ چیزیں تمہارے جسم کا انتہائی اہم جزو ہیں۔ پھر تم ان پر سواری کرتے ہو۔ تمہارے بوجھل سامان کو یہ اٹھاتے ہیں، تمہار کھیتی میں ہل یہ چلاتے ہیں، کنوئیں سے پانی یہ کیھنچتے ہیں، تم مشقت کے سب کام ان سے لیتے ہو۔ پھر ان کو ذبح کر کے ان کا گوشت بھی کھاتے ہو، ان کے بالوں سے پوشاک تیار کرتے ہو اور مرنے کے بعد ان کی ہڈیوں ، کھالوں اور دانتوں تک کو اپنے کام میں لاتے ہو۔ ان مویشیوں میں اسنان کے لئے یہ خوئے غلامی کس نے پیدا کی ؟ تمہاری پیدائش سے بھی پہلے تمہاری ضروریات کا اس قدر خیال رکھنے والا کون ہے ؟ اب دوسری طرف نظر ڈالو، زمین کے تین چوتھئای حصے پر پانی یا سمندر پھیلے ہوئے ہیں، خشکی صرف چوتھا حصہ ہے، جس پر تم اور تمہارے مویشی سب رہتے ہیں۔ اتنے سے خشکی کے حصے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا پانی کا ذخیرہ کیوں پیدا کردیا ؟ کیا کبھی تم نے اللہ کی اس نشانی پر غور کیا ڈ پھر پانی اور ہواؤں کو ایسے طبعی قوانین کا پابند کردیا کہ تم دریاؤں اور سمندروں میں کشتی بانی اور جہاز رانی کے قابل ہوگئے۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کے لئے طبعی قوانین ہی بدل ڈالے اور وہ ہر چیز کا خلاق ہے اور اس میں جیسے چاہے تصرف کرسکتا ہے، تو کیا تم جہاز رانی کرسکتے تھے، یا اس زمین پر زندہ رہ سکتے تھیڈ پھر یہ بھی سوچہ کہ جس حکمتوں والے پروردگار نے اپنی اتنی بیشمار چیزیں تمہارے تصرف میں دے رکھی ہیں، کیا وہ انسان کو اتنے اختیارات دے کر اس کو یونہی چھوڑ دے گا اور اس سے اپنی نعمتوں کا کبھی حساب نہ لے گا ؟ اور یہ نہ پوچھے گا کہ جس رحیم پروردگار نے تمہاری جملہ ضروریات کا اس قدر خیال رکھا، پھر اس کے ساتھ اپنی رحمتیں بھی نازل فرماتا رہا تو کیا انسان نے اللہ کی ان نعمتوں کی قدر کی اور اس کا شکریہ ادا کیا، یا وہ نمک حرام اور ناشکرا ثابت ہوا اور اپنی نیاز مندیاں اللہ کے بجائے دوسروں کے سامنے نچھاور کرنے لگا۔“ (تیسیرا القرآن)
Top