Al-Quran-al-Kareem - Al-Ghaafir : 83
فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آئے رُسُلُهُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیوں کیساتھ فَرِحُوْا : خوش ہوئے (اترانے لگے) بِمَا : اس پر جو عِنْدَهُمْ : ان کے پاس مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے وَحَاقَ بِهِمْ : اور گھیر لیا انہیں مَّا كَانُوْا : جو وہ کرتے تھے بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ : اس کا مذاق اڑاتے
پھر جب ان کے رسول ان کے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے تو وہ اس پر پھول گئے جو ان کے پاس کچھ علم تھا اور انھیں اس چیز نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔
(1) فلما جآء تھم رسلھم بالبینت …:”من العلم“ میں ”من“ تبعیض کیلئے ہے، یعنی علم کا وہ معمولی سا حصہ جو ان کے پاس تھا۔ اس علم سے مراد دو چیزیں ہوسکتی ہیں، ایک اللہ تعالیٰ کے متعلق ان کے وہ عقائد و رسوم جو ان کے فلسفیوں نے یا ان کے مذہبی پیشواؤں نے گھڑ رکھے تھے، جن کی بنیاد ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک پر تھی، جیسا کہ یونانیوں اور ہندوؤں کا دیوی دیوتاؤں پر مبنی سلسلہ تھا اور جیسا کہ نوح، ہود، صالح، ابراہیم اور دوسرے ابنیائے کرام ﷺ کی بت پرست اقوام کا عقیدہ تھا، جسے وہ علم سمجھتے تھے، حالانکہ وہ سرا سر جہل تھا۔ چناچہ جب ان کے رسول ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے متعلق خود اس کے عطا کردہ توحید و آخرت کے واضح عقائد اور ان کے حق ہونے کے روشن دلائل لے کر آئے تو وہ انسانی دماغوں کے گھڑے ہوئے عقائد و روسم کو برتر علم سمجھ کر انھی پر پھولے اور اکڑے رہے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے واضح عقائد اور ان کے روشن دلائل کو ٹھکرا دیا۔ دوسرا مطلب ”من العلم“ کا دنیوی علم و فن ہے، جس میں وہ مہارت رکھتے تھے، جو درحقیقت علم کا ایک معمولی اور حقیر سا حصہ ہے، کیونکہ اس کا تعلق صرف اس ناپائیدار دنیا کے چند دنوں یا لمحوں کے ساتھ ہے۔ حقیقی اور ابدی علم، یعنی آخرت کے علم سے وہ بالکل بےبہرہ تھے۔ (دیکھیے روم : 6، 7) چناچہ رسولوں کی تشریف آوری پر ایمان لانے اور اطاعت کے بجائے وہ دنیا کے اس حقیر علم پر ھولے اور اکڑے رہے جو انہیں حاصل تھا اور جسے وہ بہت بڑی بات سمجھتے تھے۔ یہ معنی الفاظ کے زیادہ قریب ہے۔ (2) وحاق بھم ماکانوا بہ یستھزؤن : یعنی انہیں اسی عذاب نے چ اورں طرف سے گھیر لیا، جس سے رسول انہیں ڈراتے تھے تو وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے اور اسے جلد از جلد لانے کا مطالبہ کرتے تھے۔
Top