Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 12
وَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا وَ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَ الْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَۙ
وَالَّذِيْ : اور وہ ذات خَلَقَ الْاَزْوَاجَ : جس نے بنائے جوڑے كُلَّهَا : سارے کے سارے اس کے وَجَعَلَ : اور اس نے بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الْفُلْكِ : کشتیوں میں (سے) وَالْاَنْعَامِ : اور مویشیوں میں سے مَا تَرْكَبُوْنَ : جو تم سواری کرتے ہو
اور وہ جس نے سب کے سب جوڑے پیدا کیے اور تمہارے لیے وہ کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔
(1) والذی خلق الازواج کلھا : تفسیر کے لئے دیکھیے سورة یٰسین کی آیت (36) کی تفسیر۔ (2) وجعل لکم من الفلک و الانعام ما ترکبون : اس سے پہلے زمین میں راستے بنانے کا ذکر فرمایا ہے جن کے ذریعے سے لوگ مختلف جگہوں کی طرف اپنی ضروریات کے لئے سفرک رتے ہیں، اب یہ نعمت یاد دلائیک ہ شہروں، میدانوں ، صحراؤں اور پہاڑوں میں سفر کے لئے اللہ تعالیٰ نے چوپائے پیدا فرمائے اور سمندروں میں قریب و دور سفروں کیلئے کشتیاں اور بڑے بڑے جہاز بنائے۔ بقاعی نے ”خلق الازواج کلھا“ کے ساتھ چوپاؤں اور کشتیوں کے ذکر کی بھی ایک مناسبت ذکر فرمائی ہے کہ ”الازواج“ سے ذہن مختلف جوڑوں کی طرف منتقل ہوتا ہے، مثلاً نر اور مادہ، اس لئے یہ واضح کرنے کے لئے کہ ”الازواج“ سے مراد صرف جوڑے ہی نہیں بلکہ وہ تمام اصناف ہیں جن کیا کید وسرے سے مناسبت یا موافقت یا مخالفت ہوتی ہے، جیسے زمین و آسمان، شب و روز، نیک و بد اور جنت و جہنم وغیرہ، اللہ تعالیٰ نے چوپاؤں اور کشتیوں کا ذکر فرمایا کہ دونوں کی بناوٹ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے، مگر مقصود دونوں سے ایک ہے ”ماترکبون“ یعنی انسان کے لئے بحر و بر میں سواری مہیا کرنا۔
Top