Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 13
لِتَسْتَوٗا عَلٰى ظُهُوْرِهٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْهِ وَ تَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَۙ
لِتَسْتَوٗا : تاکہ تم چڑھ بیٹھو عَلٰي ظُهُوْرِهٖ : ان کی پشتوں پر ثُمَّ تَذْكُرُوْا : پھر تم یاد کرو نِعْمَةَ رَبِّكُمْ : اپنے رب کی نعمت کو اِذَا اسْتَوَيْتُمْ : جب سوار ہو تم عَلَيْهِ : اس پر وَتَقُوْلُوْا : اور تم کہو سُبْحٰنَ الَّذِيْ : پاک ہے وہ ذات سَخَّرَ لَنَا : جس نے مسخر کیا ہمارے لیے ھٰذَا : اس کو وَمَا كُنَّا : اور نہ تھے ہم لَهٗ : اس کے لیے مُقْرِنِيْنَ : قابو میں لانے والے
تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر بیٹھو، پھر اپنے رب کی نعمت یاد کرو، جب ان پر جم کر بیٹھ جاؤ اور کہو پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لیے تابع کردیا، حالانکہ ہم اسے قابو میں لانے والے نہیں تھے۔
(1) لتستوا علی ظھورہ……: انسان جب گھوڑوں ، گدھوں، خچروں، اونٹوں یا کشتیوں پر سوار ہوتا ہے اور جم کر بیٹھ جاتا ہے تو عام عادت بن جانے کی وجہ سے اسے احساس ہی نہیں ہوتا کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سواریوں کو تابع کردیئے جانے کی کتنی بڑی نعمت عطا ہوئی ہے۔ ذرا کسی شیر یا چیتے یا کسی اور جنگلی جانور پر اس طرح جم کر بیٹھے، پھر اسے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر ہوگی۔ یہی حال سمندر میں پہاڑوں جیسی موجوں کے درمیان بحری جہازوں پر سکون و اطمینان کے ساتھ سواری کا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے کشتیوں اور چوپاؤں میں سے تمہارے لئے سواریاں بنائیں، تاکہ ان کی پشتوں پر جم کر بیٹھو، پھر جب ان پر جم کر بیٹھ جاؤ تو اپنے رب کی انھیں تمہارے لئے مسخر کرنے کی نعمت یاد کرو۔ (2) وتقولوا سبحن الذی سخرلناھذا…: اور دل میں یاد کرنے کے ساتھ زبان سے بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح ان الفاظ میں ب یان کرو، تاکہ تمہیں احساس رہے اور اقرار بھی ہوتا رہے اور اقرار بھی ہوتا رہے کہ ان سواریوں کو قابو میں لانا کبھی ہمارے بس کی بات نہ تھی اور یہ تھی اور یہ بھی کہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے ان سواریوں کی محتاجی ہم مجبور بندوں کی ضرورت ہے۔ ہمارا مالک ہر قسم کے احتیاج اور مجبوری سے پاک ہے۔ اگر انسان سوچے تو سواریوں سے پہلے زمین کی پشت بھی چوپاؤں اور کشتیوں کی پشت کی طرح ہے، جس پر سوار وہ زمانے کے حوادث اور تھپیڑوں کے درمیان جم کر محو سفر ہے۔ سو ہماری ابتدا ہمارے رب کی طرف سے ہوئی، اس نے زندگی بسر کرنے کے لئے زمین کی پشت کو ہمارے لئے بچھونا بنادیا، پھر اس نے چوپاؤں اور کشتیوں کی پشت کو ہمارے لئے جائے سکون بنادیا، اب ساری عمر ہم ان پر سکون و اطمینان کیساتھ سوار ہوتے رہتے ہیں۔ (3) وانا الی ربنا لمنقلبون : اور یہ بات یقینی ہے کہ ہم دنیا کی زندگی کا سفر پورا کرنے کے بعد اپنے رب کی طرف واپس پلٹنے والے ہیں۔ ابن کثیر رحمتہ اللہ نے فرمایا :”اس میں دنیا کے سفر سے آخرت کے سفر کی طرف تنبیہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیوی زاد سے آخرت کے زاد کی طرف تنبیہ فرمائی، فرمایا :(وترودوا فان خیر الزاد التقویٰ) (البقرہ :198) ”اور زاداہ نے لو کہ بیشک زاد راہ کی سب سے بہتر خوبی (سوال سے) بچنا ہے۔“ اور دنیوی لباس کے ساتھ آخرت کے لباس کی طرف تنبیہ فرمائی ہے، فرمایا :(وریشآء و لیاس التقویٰ ، ذلک خیر) (الاعراف : 26) ”اور زینت بھی اور تقویٰ کا لباس !ٖ وہ سب سے بہتر ہے۔“ (4) علی ظھورہ“ میں ”ہ“ ضمیر ”ما ترکبون“ میں اسم موصول کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اگرچہ اس کے معنی میں عموم ہے، مگر لفظ واحد ہونے کی وجہ سے ضمیر واحد لائی گئی ہے۔ (5) یہ دعا سواری پر سوار ہونے کے بعد کی ہے، سوار ہوتے وقت ”بسم اللہ“ پڑھنا چاہیے، جیسا کہ نوح ؑ نے اپنے ساتھ کشتی میں سوار ہونے والوں کو فرمایا تھا :(وقال ارکبوا فیھا بسم اللہ مجرلھا ومرسھا ان ربی لغفور رحیم) (ھود : 31) ”اور اس نے کہا اس میں سوار ہوجاؤ، اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا اللہ ہی کے نام کے ساتھ ہے، بیشک میرا رب یقیناً بےحد بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔“ علی ازدی کہتے ہیں کہ ابن عمر ؓ نے انھیں سکھایا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر کی طرف نکلتے ہوئے سواری پر جم کر بیٹھ جاتے تو تین دفعہ ”اللہ اکبر“ کہتے، پھر کہتے :(سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون، اللھم انا نسالک فی سفرنا ھذا البر والتقوی ومن العمل ما ترضی ، اللھم ھون علینا سفرنا ھذا و اطوعنا بعدہ اللھم انت الصاحب فی السفر والخلیفہ فی الاھل، اللھم انی اعوذ بک من وعناہ الشعر، وکابۃ المنتظر وسوہ المنقلب فی المال والاھل)”پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لئے تابع کردیا، حالانکہ ہم اسے قابو میں لانے والے نہ تھے اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف ضرور لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اے اللہ ! ہم پر ہمارا یہ سفر آسان کر دے اور اس کی دوسری کو ہم سے لپیٹ دے۔ اے اللہ ! تو ہی سفر میں ساتھی اور گھر والوں میں جانشین ہے۔ اے اللہ ! میں سفر کی مشقت اور غم ناک منظر دیکھنے سے اور مال اور اہل میں ناکام لوٹنے کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اور جب سفر سے واپس لوٹتے تو یہی الفاظ کہتے اور یہ الفاظ مزید کہتے :(ائبون تائبون عابدون لربنا حامدون) (مسلم، الحج، باب استحباب الذکر اذا ر کب دابتہ …:1332)”ہم واپس لوٹنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، اپنے رب ہی کی حمد کرنے والے ہیں۔“ کتب احادیث میں سفر کی اور دعائیں بھی مذکور ہیں۔
Top