Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 15
وَ جَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِیْنٌؕ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے بنادیا لَهٗ : اس کے لیے مِنْ عِبَادِهٖ : اس کے بندوں میں سے جُزْءًا : ایک جزو۔ حصہ ۭاِنَّ الْاِنْسَانَ : بیشک انسان لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ : البتہ ناشکرا ہے کھلم کھلا
اور انھوں نے اس کے لیے اس کے بعض بندوں کو جز بنا ڈالا، بیشک انسان یقینا صریح ناشکرا ہے۔
(1) وجعلوا لہ من عبادہ جزئاً : اس آیت کا تعلق آیت (9):(ولئن سالتھم من خلق السموت والارض لیقولن خلقھن العزیز العلیم) کے ساتھ ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مشرکین کی جہالت پر تعجب دلاتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ دیکھو یہ لوگ مانتے ہیں کہ آسمان و زمین کا خلاق اور ان کی ہر چیز کا مدبر اللہ تعالیٰ ہے، جو مخلوق سے جدا ہے اور کسی طرح محتاج نہیں، پھر اس کے لئے شریک اور اس کی اولاد بناتے ہیں۔ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ جو آسمان و زمین کو پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے وہ مدد کے لئے یا دل لگانے کے لئے کسی کا محتاج نہیں، کیونکہ یہ دونوں نقص کی علامتیں ہیں۔ پھر ظلم دیکھو کہ عباد (غلاموں) کو اولاد قرار دے رہے ہیں، جب کہ اولاد غلام ہو ہی نہیں سکتی، کیونکہ وہ تو باپ کا جزو ہوتی ہے۔ جب کوئی اللہ کا جزو ثابت ہوگیا تو اللہ تعالیٰ کا اس کا محتاج ہونا بھی ثابت ہوگیا۔ ”عبادہ“ میں فرشتے، جن اور انسان سبھی داخل ہیں۔ یہود و نصاریٰ نے عزیز و مسیح کو ابن اللہ قرار دیا، تو کچھ نام نہاد مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کو اللہ کے نور کا ٹکڑا قرار دیا اور بعض نے کہا کہ پنج تن اللہ کے نور سے پیدا ہوئے ہیں۔ دیکھیے سورة توبہ کی آیت (30) کی تفسیر۔ مشرکین فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ انہوں نے ان کے بت عورتوں کی شکل میں بنا رکھے تھے۔ یہی دیویاں تھیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے۔ (2) ان الانسان لکفور مبین : صریح ناشکرا اس لئے کہ جس پروردگار نے اسے پیدا کیا، زمین و آسمان اور کل کائنات پیدا فرمائی، اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کو ایک مان کر اس اکیلے کی بندگی کرنے کے بجائے اس نے اس کے بندوں کو اس کی اولاد قرار دے کر صفات ہی میں نہیں اس کی ذات میں بھی شریک ٹھہرا دیا۔
Top