Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 22
بَلْ قَالُوْۤا اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤى اٰثٰرِهِمْ مُّهْتَدُوْنَ
بَلْ : بلکہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّا : بیشک ہم نے وَجَدْنَآ : پایا ہم نے اٰبَآءَنَا : اپنے آباؤ اجداد کو عَلٰٓي اُمَّةٍ : ایک طریقے پر وَّ اِنَّا : اور بیشک ہم عَلٰٓي اٰثٰرِهِمْ : ان کے آچار پر۔ نقش قدم پر مُّهْتَدُوْنَ : ہدایت یافتہ ہیں۔ راہ پانے والے ہیں
بلکہ انھوں نے کہا کہ بیشک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راستے پر پایا ہے اور بیشک ہم انھی کے قدموں کے نشانوں پر راہ پانے والے ہیں۔
بل قالوآ انا وجدنا ابآء نا علی امۃ…: یعنی ایسا نہیں کہ ان کے پاس اپنی گمراہی کے لئے اللہ تعالیٰ کی کسی کتاب کی کوئی دلیل یا سند موجود ہے، بلکہ ان کی دلیل اور سند یہی ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی راہ پر پایا ہے اور ہم انھی کے قدموں کے نشانوں پر راہ پانے والے ہیں۔ اس کی ہم معنی آیت کے لئے دیکھیے سورة ذاریات (52، 53)۔ باطل اور ناحق باتوں (شرک و بدعت اور رسوم) میں بڑوں اور بزرگوں کی پیروی کو دلیل بنانا وہ گمراہی ہے جو قدیم زمانے سے چلی آئی ہے اور کفار کا شیوہ رہا ہے کہ وہ انیاء کے مقابلے میں اس کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں، قرآن نے متعدد آیات میں ان کی مذمت فرمائی ہے۔ معلوم ہوا کہ جس بات میں اللہ اور رسول کی کوئی سند نہ ہو اس میں باپ دادا یا کسی امام، مرشد یا بزرگ کی تقلید کرنا اور یہ کہنا کہ ہمارے بزرگ چونکہ ایسے ہی کرتے چلے آئخے ہیں، لہٰذا ہم بھی اسی راہ پر چلیں گے، سراسر باطل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقلدین کی یہ تقلید صرف دین کے معاملے میں ہتوی ہے، اگر انھیں اپنے باپ دادا کے کسی دنیوی کاروبار میں روپے پیسے کا نقصان نظر آئے تو کبھی ان کی پیروی نہیں کریں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک دین اور آخرت کا خسارہ کچھ خسارہ ہی نہیں، ورنہ وہ کبھی ایسا نہ کریں۔
Top