Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 36
وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ
وَمَنْ : اور جو يَّعْشُ : غفلت برتتا ہے۔ اندھا بنتا ہے عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے ذکر سے نُقَيِّضْ : ہم مقرر کردیتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے شَيْطٰنًا : ایک شیطان فَهُوَ لَهٗ : تو وہ اس کا قَرِيْنٌ : دوست ہوجاتا ہے
اور جو شخص رحمن کی نصیحت سے اندھا بن جائے ہم اس کے لیے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں، پھر وہ اس کے ساتھ رہنے والا ہوتا ہے۔
(1) ومن یعش عن ذکر الرحمٰن : زمخشری نے فرمایا،”غشی یعشی“ (ع) جب نظر میں خرابی آجائے اور ”غشا یعشو“ (ن) جب اس شخص کی طرف دیکھے جس کی نظر خراب ہے، حالانکہ اس میں کوئی خرابی نہ ہو۔ دونوں میں ہے، اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت بھی اور یہ قرآن بھی۔ دنیا کی زیب و زینت میں ہمہ تن مشغول ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اللہ کے ذکر سے غافل ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے فرشتے اس سے نفرت کرتے ہیں اور شیطان اس سے چمٹ جاتے ہیں، جو اسے ہر برائی میں مبتلا کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(یایھا الذین امنوا لاتلھکم اموالکم ولا اولادکم عن ذکر اللہ ومن یفعل ذلک فاؤلئک ھم الخسرون) (المنافقون : 9)”اے لوگو جو ایمان لائے ہوچ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔“ اور جو شخص خواہش نفس پر قابو رکھ کر دنیا کے فتنوں سے بچے اور اللہ کے ذکر پر دوام کرے تو شیطان اس سے دور ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ فرشتہ مقرر کردیتے ہیں جو اس کی مدد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر سے جان بوجھ کر غفلت کے لئے اندھا بننے کا لفظ استعمال فرمایا اور لفظ ”الرحمٰن“ اس لئے ذکر فرمایا کہ انسان کے لائق نہیں کہ اس بےحد رحم والے کے ذکر سے غفلت کرے۔ (2) نقیض لہ شیطناً فھولہ قرین : اس کی تفسیر کیلئے دیکھیے سورة حم السجدہ (25)۔ ”شیطناً“ نکرہ ہے، کوئی نہ کوئی شیطان، وہ انسانوں میں سے ہو یا ابلیس کی اولاد میں سے۔ شیطان مقرر کرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی، حالانکہ یہ انسان کے اللہ کے ذکر سے غافل ہونے کا نتیجہ ہوتا ہے، کیونکہ ہر کام کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور تمام امور اسی کی طرف لوٹتے ہیں، جیسا کہ فرمایا :(والی اللہ ترجع الامور) (البقرۃ : 210)”اور سب کام اللہ ہی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔“
Top