Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 4
وَ اِنَّهٗ فِیْۤ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَكِیْمٌؕ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ فِيْٓ اُمِّ الْكِتٰبِ : ام الکتاب میں ہے لَدَيْنَا : ہمارے پاس لَعَلِيٌّ حَكِيْمٌ : البتہ بلند ہے، حکمت سے لبریز ہے
اور بیشک وہ ہمارے پاس اصل کتاب میں یقینا بہت بلند، کمال حکمت والا ہے۔
(1) وانہ فی ام الکتب :”ام الکتب“ کا معنی ہے ”کتاب کا اصل۔“ اکثر مفسرین نے اس سے مراد لوح محفوظ لیا ہے، جہاں سے تمام آسانی کتابیں نازل ہوئی ہیں، جیسا کہ فرمایا (بل ھو قرآن مجید فی لوح محفوظ) (البروح :22, 21)”بلکہ وہ ایک بڑی شان والا قرآن ہے۔ اس تخی میں (لکھا ہوا) ہے جس کی حفاظت کی گئی ہے۔“ اور فرمایا :(انہ لقرآن کریم فی کتب مکنون لایمسہ الا المطھرون تنزیل من رب العلمین) (الواقعہ :88 تا 80)”کہ بلاشبہ یہ یقیناً ایک باعزت پڑھی جانے والی چیز ہے۔ ایک ایسی کتاب میں جو چھپا کر رکھی ہوئی ہے۔ اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا مگر جو بہت پاک کئے ہوئے ہیں۔ تمام جہانوں کے رب کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔“ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ”ام الکتب“ سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم ہے جو ہر آسمانی کتاب کا اصل ہے۔ لوح محفوظ کا اصل قرآن ایک کمال حکمت والے، سب کچھ جاننے والے کے پاس سے عطا کیا جاتا ہے۔“ (2) لدینا لعلی حکیم :”لذی“ اور ”عند“ دونوں کا معنی ”کسی کے پاس“ ہونا ہے۔ مگر ”لدی“ خاص قرب کے لئے ہے اور ”عند“ عام کے لئے۔ چناچہ ”المال عند زید“ (مال زید کے پاس ہے) اس مال کیلئے بھی آتا ہے جو اس کے پاس حاضر ہو اور اس مال کے لئے بھی جو اس کے خزانے میں ہو، جبکہ ”المال لدی زید“ صرف اس مال کے لئے آتا ہے جو اس کے پاس حاضر ہو۔ (تفسیر ثنائی)”لعلی“ یعنی یہ قرآن ہمارے علم میں (یا لوح محفوظ میں) ہمارے پاس یعنی ہمارے خاص قرب میں بہت بلند مرتبے والا ہے، ملاء اعلیٰ میں اس کا بہت اونچا مقام ہے، تمام کتابوں اور تمام علوم سے برتر اور بلند ہے۔ ”حکیم“ یعنی کمال حکمت اور دانئای کی باتوں سے بھرا ہوا ہے، اس کی ہر بات دانائی پر مشتمل اور صحیح عقل کے عین مطابق ہے۔ ”حکیم“ کا معنی محکم بھی ہے، یعنی یہ قرآن ایسا مضبوط و محکم ہے کہ نہ اس میں کسی طرح باطل کی آمیزش ہوسکتی ہے نہ باطل اس کے مقابلے میں ٹھہر سکتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ، تنزیل من حکیم حمید) (حم السجدۃ : 32)”اس کے پاس باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کیپ یچھے سے، ایک کمال حکمت والے، تمام خوبیوں الے کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔“ مزید دیکھیے سورة ہود (1) مراد اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قرآن کی قدر و منلزت ذہن نشین کروانا ہے، تاکہ کوئی شخص اسے معمولی سمجھ کر اس پر ایمان لانے اور اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم نہ رہے۔ اسی بلند متر بےکا اظہار ”انہ لقران کریم“ اور ”بل ھو قرآن مجید“ کے الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة واقعہ (77) اور سورة بروج (21)۔
Top