Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 49
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَ السّٰحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ١ۚ اِنَّنَا لَمُهْتَدُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا يٰٓاَيُّهَ السّٰحِرُ : اے جادوگر ادْعُ لَنَا : دعا کرو ہمارے لیے رَبَّكَ : اپنے رب سے بِمَا : بوجہ اس کے جو عَهِدَ عِنْدَكَ : اس نے عہد کیا تیرے پاس اِنَّنَا لَمُهْتَدُوْنَ : بیشک ہم البتہ ہدایت یافتہ ہیں
اور انھوں نے کہا اے جادوگر ! ہمارے لیے اپنے رب سے اس کے ذریعے دعا کر جو اس نے تجھ سے عہد کر رکھا ہے، بیشک ہم ضرور ہی سیدھی راہ پر آنے والے ہیں۔
(1) وقالوا یا یہ السحر ادع لنا ربک …: یہاں یہ بات اختصار کے ساتھ ذکر ہوئی ہے، سورة اعراف میں تفصیل کے ساتھ ہے، فرمایا (ولما وقع علیھم الرجز قالوا یموسی ادع لنا ربک بما عھد عندک لئن کشفت عذا الرجز لنومنن لک ولنرسلن معک بنی اسرآئیل (الاعراف : 133)”اور جب ان پر عذاب آتا تو کہتے اے موسیٰ ! اپنے رب سے ہمارے لئے اس عہد کے واسطے سے دعا کر جو اس نے تیرے ہاں دے رکھا ہے، یقینا اگر تو ہم سے یہ عذاب دور کر دے تو ہم ضرور ہی تجھ پر ایمان لے آئیں گے اور تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو ضروری بھیج دیں گے۔“ (2) یہاں ایک سوال ہے کہ اتنی مشکل گھڑی میں جب وہ عذاب میں گرفتار تھے اور موسیٰ ؑ سے دعا کی درخواست کر رہے تھے اس وقت بھی وہ موسیٰ ؑ کو ”یا یہ السحر“ (اے جادوگر !) کے ساتھ مخاطب کر رہے ہیں، حالانکہ اس وقت تو انہیں کسی اچھے لفظ سے مخاطب کرنا چاہیے تھا۔ پھر موسیٰ ؑ پر صریح بہتان سن کر بھی انہیں کچھ نہیں کہتے، بلکہ ان کے لئے دعا کر کے انھیں عذاب سے نجات دلواتے ہیں۔ مفسرین نے اس کے کئی جواب دیئے ہیں، یہاں ان میں سے دو جواب ذکر کئے جاتے ہیں۔ ابن کثیر نے فرمایا :”ساحر سے مراد عالم ہے، یہی ابن جریر نے فرمایا ہے۔ ان کے زمانے کے علماء جادوگر ہی تھے اور ان کے ہاں جادو بری چیز نہ تھا، اس لئے انہوں نے یہ الفاظ تنقیص کے لئے نہیں کہے، کیونکہ ان کی مجبوری کی حلات اس سے مناسبت نہیں رکھتی، بلکہا ن کے گمان کے مطابق یہ تعظیم کا لفظ تھا۔“ (ابن کثیر) دوسرا جواب یہ ہے کہ انہوں نے خطاب ”یا موسیٰ“ کے الفاظ کے ساتھ ہی کیا تھا، جیسا کہ سورة اعراف کی آیت (134) میں ہے، مگر وہ دل سے انھیں جادوگر سمجھتے تھے اور وہ جادو اور جادوگروں کو مذموم ہی سمجھتے تھے، جیسا کہ اس سے پہلے فرعون اور اس کے درباریوں نے صاف الفاظ میں کہا تھا :(فقالوا سحر کذاب) (المومن : 27)”تو انہوں نے کہا جادوگر ہے۔ بہت جھوٹا ہے۔“ اب ان کا حال دیکھیے کہ وہی شخص جسے وہ جادوگر سمجھتے تھے نہایت عاجزی کے ساتھ اسی سے دعا کی درخواست کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی درخواست کا ذکر فرماتے ہوئے ان کے دل کی حالت کا ذکر اپنے الفاظ میں فرمایا ہے۔ مقصود ان پر طعن ہے کہ جب جادوگر سمجھتے ہو اور ہمیشہ اسے اسی لفظ سے یاد کرتے ہو تو اس سے دعا کی درخواست کیسی ؟ اور اگر مستحاب الدعاء کہتے ہو تو جادوگر کیوں سمجھتے ہو ؟ یہ ایسے ہی ہے کہ قریش جو رسول اللہ ﷺ کو جادو گر کہتے تھے اور آپ ﷺ کا مذاق اڑاتے تھے، مشکل وقت میں وہ رسول اللہ ﷺ سے دعا کی درخواست بھی کیا کرتے تھے، جیسا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے ان کا حال بیان کیا ہے، فرماتے ہیں :(وان قریشا ابطؤا عن الاسلام فدعا علیھم النبی ﷺ فقال الھھم اعنی علیھم بسبع کسبع یوسف، فاخذتھم سنۃ حتی ھلکوا فیھا، واکلوا المیتۃ والعظام و یری الرجل ما بین السماء والارض کھیئۃ الدخان، فجاء ہ ابوسفیان فقال یا محمدً ! جئت تامرنا بصلۃ الرحیم، و ان قومک قد ھلکوا فاد اللہ) (بخاری، التفسیر، سورة الروم :3883)”قریش نے اسلام قبول کرنے میں دیر کی تو رسول اللہ ﷺ نے ان پر بد دعا کی :”اے اللہ ! ان کے خلاف یوسف (علیہ اسلام) کے قحط والے سات سالوں جیسے سات سالوں کے ساتھ میری مدد فرما۔“ تو انہیں قحط نے آلیا، یہاں تک کہ وہ اس میں برباد ہوگئے اور مردار اور ہڈیاں کھا گئے اور آدمی کو آسمان و زمین کے درمیان دھواں سا نظر آتا تھا۔ تو آپ ﷺ کے پاس ابوسفیان آیا اور کہنے لگا : ”اے محمد ! آپ ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور حال یہ ہے کہ آپ کی قوم برباد ہوگئی ہے، اس لئے اللہ سے دعا کیجیے۔“ اس حدیث میں ہے کہ جب آپ ﷺ کی دعا سے قحط دور ہوا تو پھر منکر ہوگئے۔ مجھے یہ دوسرا جواب بہتر معلوم ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم)
Top