Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 53
فَلَوْ لَاۤ اُلْقِیَ عَلَیْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَآءَ مَعَهُ الْمَلٰٓئِكَةُ مُقْتَرِنِیْنَ
فَلَوْلَآ : تو کیوں نہیں اُلْقِيَ : اتارے گئے عَلَيْهِ : اس پر اَسْوِرَةٌ : کنگن مِّنْ ذَهَبٍ : سونے کے اَوْ جَآءَ : یا آئے مَعَهُ : اس کے ساتھ الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے مُقْتَرِنِيْنَ : ساتھ رہنے والے
پس اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے، یا اس کے ہمراہ فرشتے مل کر کیوں نہیں آئے ؟
(فلو لا القی علیہ اسورۃ من ذھب …:”اسورۃ“ ”سوار“ کی جمع ہے، کنگن۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ نہ موسیٰ ؑ سونے کے کنگن پہنیں گے ، نہ ان کے ساتھ فرشتے آئیں گے اور نہ ہمیں ان پر ایمان لانا پڑے گا۔ ہمارے نبی کریم ﷺ پر ایمان لان کے لئے بھی کفار نے دوسری بہت سی چیزوں کے ساتھ سونے کے مکان اور اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کو سامنے لانے کی شرط عائد کیھی، فرمایا :(وقالوا لن نومن لک حتی تفجر لنا من الارض ینبوعاً اوتکون لک جنۃ من نحیل و عنب فتفجر الانھر خلھا تفجیراً او تسقط السمآء کما زعمت علینا کسفا او تاتی باللہ والملئکۃ قلیلاً اویکون لک بیت من زخرف او ترقی فی السمآئ) (بنی اسرائیل :90 تا 93)”اور انہوں نے کہا ہم ہرگز تجھ پر ایمان نہ لائیں گے، یہاں تک کہ تو ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری کرے۔ یا تیرے لئے کھجوروں اور انگور کا ایک باغ ہو، پس تو اس کے درمیان نہیں جاری کر دے، خوب جاری کرنا۔ یا آسمان کو ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دے ، جیسا کہ تو نے دعویٰ کیا ہے، یا تو اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔ یا تیرے لئے سونے کا ایک گھر وہ، یا تو آسمان میں چڑھ جائے۔“ حقیقت یہ ہے کہ تمام انبیاء ﷺ کی دعوت ایک تھی اور سبھی کو دعوت کے سلسلے میں ایک جیسے مراحل سے گزرنا پڑا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے پیغمبروں خصوصاً موسیٰ ؑ کے واقعات بار بار بیان فرمائے ہیں، تاکہ آپ ﷺ کو تسلی ہو اور آپ صبر و استقامت سے کام لیں اور آپ کے زمانے کے کفار کو پہلی کافر اقوام کے انجام سے عبرت ہو اور وہ کفر سے باز آجائیں۔
Top