Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 61
وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِ١ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَعِلْمٌ : البتہ ایک علامت ہے لِّلسَّاعَةِ : قیامت کی فَلَا تَمْتَرُنَّ : تو نہ تم شک کرنا بِهَا : ساتھ اس کے وَاتَّبِعُوْنِ : اور پیروی کرو میری ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ : یہ ہے سیدھا راستہ
اور بلاشبہ وہ یقینا قیامت کی ایک نشانی ہے تو تم اس میں ہرگز شک نہ کرو اور میرے پیچھے چلو، یہ سیدھاراستہ ہے۔
(1) وانہ لعلم للساعۃ :”علم“ سے مراد علم کا ذریعہ اور نشانی ہے، یعنی عیسیٰ ؑ کی پیدائش اور پہلی مرتبہ دنیا میں آنا تو خاص بنی اسرائیل کے لئے ایک نشان تھا، دوبارہ آنا قیامت کا نشان ہوگا۔ ان کے نزول سے لوگ معلوم کریں گے کہ اب قیامت بالکل قریب آلگی ہے۔ ابن کثیر رحتہ اللہ نے فرمایا :”اس سے مراد قیامت سے پہلے ان کا نزول ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :(وان من اھل الکتب الالیومنن بہ قبل موتہ ، ویوم القیمۃ یکون علیھم شھیداً) (النسائ : 159)”اور اہل کتاب میں سے کوئی نہیں مگر اس کی موت سے پہلے اس پر ضرور ایمان لائے گا اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوگا۔“ اس معنی کی تائید دوسری قرأت ”وانہ لعلم للساعۃ“ سے بھی ہوتی ہے، یعنی وہ قیامت واقع ہونے کا ایک نشان اور دلیل ہے۔ مجاہد رحمتہ اللہ نے رمایا،”وانہ لعلم للساعۃ“ یعنی قیامت کی ایک نشانی عیسیٰ ابن مریم ؑ کے عادل و منصف امام بن کر نازل ہونے کی خبر دی۔“ (ابن کثیر) ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(والذی نفسی بیدہ ، لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکما عدلاً فیکسر الصلیب، ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ و یقیض المال حتی لا یقبلہ احد ، حتی تکون السجدہ الواحدہ خیراً من الدنیا وما فیھما ثم یقول ابوہریرہ و اقرء و ان شتم :(وان من اھل الکتب الا لیومنن بہ قبل موتہ ، ویوم القیمۃ یکون علیھم شھیداً) (النسائ : 159) (بخاری، احادیث الانبیاء باب نزول عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام :338)”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یقیناً قریب ہے کہ تم میں ابن مریم ؑ انصاف کرنے والا حاکم بن کر نازل ہو، پھر وہ صلیب توڑ دے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا اور جزیہ ختم کرے گا اور مال عام ہوجائے گا، حتیٰ کہ اسے کوئی قبول نہیں کرے گا، حتیٰ کہ ایک سجدہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔“ پھر ابوہریرہ ؓ فرماتے :”اور اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو :”اور اہل کتاب میں کوئی نہیں مگر وہ اس کی موت سے پہلے اس پر ضرور ایمان لائے گا اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوگا۔“ سورة نساء کی آیت (158، 159) کی تفسیر پر بھی نگاہ ڈال لیں۔ (2) وانہ لعلم للساعۃ“ کا مطلب یہ بھی ہے کہ عیسیٰ ؑ کا وجود قیامت قائم ہونے کی نشانی اور دلیل ہے، کیونکہ وہ عام دستور کے خلاف باپ کے بغیر پیدا ہوئے، پھر وہ اللہ کے اذن سے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ یہ دونوں باتیں اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرت کا نشان ہیں کہ وہ قیامت برپا کرنے پر بھی یقینا قادر ہے۔ (3) بعض مفسرین نے ”ہ“ ضمیر سے مراد قرآن لیا ہے۔ ابن عاشور نے فرمایا :”وانہ لعلم الساعۃ“ کا عطف ”وانہ لذکر لک و لقومک“ پر ہے، یعنی یہ قرآن تمہارے لئے قیامت کا علم حاصل ہونے کا ذریعہ ہے، جس سے تمہیں اس کے قیام اور اس میں پیش آنے والے معاملات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔“ ابن کثیر نے قتادہ، حسن بصری اور سعید بن جبیر رحمتہ اللہ کا یہی قول بیان کیا ہے کہ ”ہ“ ضمیر سے مراد قرآن ہے۔ (4) فلا تمترن بھا …: یعنی قرآن تمہیں قیامت کے وقوع سے آگاہ کرتا ہے، اس لئے تم اس میں ہرگز شک نہ کرو اور میری پیروی کرو، یہ صراط مستقیم ہے جس کی میں تمہیں دعوت دیتا ہوں۔
Top