Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 66
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
هَلْ : نہیں يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کرتے اِلَّا السَّاعَةَ : مگر قیامت کا اَنْ تَاْتِيَهُمْ : کہ آجائے ان کے پاس بَغْتَةً : اچانک وَّهُمْ : اور وہ لَا : نہ يَشْعُرُوْنَ : شعور رکھتے ہوں
وہ قیامت کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ان پر اچانک آجائے اور وہ سو چتے بھی نہ ہوں۔
(1) ھل ینظرون الا الساعۃ ان تاتیھم بغثہ : یہ اس سوال کا جواب ہے جو پچلھی آیت کے آخری جملے سے پیدا ہوسکتا ہے کہ ظالموں کے لئے ”ویل“ (ہلاکت) کا وہ دن کب ہوگا اور اس عذاب الیم کی کیفیت کیا ہوگی۔ جواب یہ ہے کہ اس کا آنا یقینی ہے ، جلدی آئے یا دیر سے، اس لئے اس کی تیاری کرو، اس بحث میں مت پڑو کہ وہ کب آئے گی۔”بغتہ“ (اچانک) کا مطلب ہی یہ ہے کہ ت میں اس کے آنے کا وقت معلوم نہیں ہوسکتا، کیونکہ جس کے آنے کا وقت معلوم ہوجائے وہ اچانک نہیں ہوتی۔ دیکھیے سورة اعراف (187) اور سورة یٰسین (49، 50)۔ (2) وھو لایشعرون، یہاں ایک سوال ہے کہ ”بغتۃ“ (اچانک) کے لفظ کے بعد ”وھو لایشعرون“ کی کیا ضرورت ہے ؟ جواب یہ ہے کہ بعض اوقات ایسی چیزیں بھی اچانک آجاتی ہیں جن کے متعلق انسان سوچ رہا ہوتا ہے اور ایک جواب پر ہے کہ یہ ”بغتتہ“ کی تاکید ہے۔
Top