Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 67
اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠   ۧ
اَلْاَخِلَّآءُ : دوست يَوْمَئِذٍۢ : آج کے دن بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض لِبَعْضٍ : بعض کے لیے عَدُوٌّ : دشمن ہوں گے اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ : مگر تقوی والے
سب دلی دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر متقی لوگ۔
(1) الا خلآء یومئذ بعضھم لبعض عدو : یہ اس دن کے عذاب الیم کی ہولناکی کا کچھ بیان ہے۔ اس دن متقین کے سوا تمام دلی دوستوں کے ایک دوسرے کے دشمن ہوجانے کا خاص طور پر ذکر کرنے کی مناسبت یہ ہے کہ مشرکین نے دنیا میں ایک دوسرے کی دوستی ہی کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی دشمنی میں ایکا کیا ہوا تھا اور باہمی گٹھ جوڑ ہی کی وجہ سے شرک پر جمے ہوئے تھے۔ یہی دوستی قیامت کے دن دشمنی میں بدل جائے گی اور ہر شخص دور سے کو اپنی بربادی کا باعث قرار دے گا اور کہے گا :(یویلتی لیتنی لم اتخذ فلانا خلیلاً) (الفرقان : 28)”ہائے میری بربادی کاش کہ میں فلاں کو دلی دوست نہ بناتا۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کا اپنی قوم سے خطاب نقل فرمایا :(وقال انما اتخثم من دون اللہ اوثاناً مودۃ بینکم فی الحیوۃ الدنیا ثم یوم القیمۃ یکفر بعضکم ببعض ویلمن بعضکم بعضاً ، وماو لکم النار وما لکم من نصرین) (العنکبو : 25)”اور اس نے کہا بات یہی ہے کہ تم نے اللہ کے سوا بت بنائے ہیں، دنیا کی زندگی میں آپ س کی دوستی کی وجہ سے، پھر قیامت کے دن تم میں سے بعض بعض کا انکار کرے گا اور تم میں سے بعض بعض پر لعنت کرے گا اور تمہارا ٹھکانا آگ ہی ہے اور تمہارے لئے کوئی مدد کرنے والے نہیں۔“ (2) الا المتقین : متقین کی دوستی اس دن بھی قائم رہے گی، کیونکہ اس کا باعث اللہ کی رضا کا حصول ہوتا ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہے۔ دوسرے تمام دوستوں کی دوستی کا باعث کوئی نہ کوئی دنیوی مفاد ہوتا ہے جس کے ختم ہونے کے ساتھ دوستی بھی ختم ہوجائے گی بلکہ دشمنی میں بدل جائے گی، کیو کہ وہ دوستی ہی اس دن کے عذاب کا باعث بنی۔
Top