Al-Quran-al-Kareem - Al-Fath : 14
وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کی وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین يَغْفِرُ : وہ بخش دے لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَيُعَذِّبُ : اور عذاب دے مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جس کو وہ چاہے وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے، وہ بخش دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور سزا دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ ہمیشہ سے بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
(1) وللہ ملک السموت والارض : یہ ان پیچھے چھوڑ دیے جانے والے اعراب کو فرمایا جن کا اوپر ذکر ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے، اگر تم نے نفاق پر اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد پر جانے سے گریز پر اصرار کیا تو کسی میں طاقت نہیں کہ وہ جو عذاب دینا چاہے اس سے تمہیں بچا سکے، یا اگر وہ تمہاری ندامت اور توبہ کا تمہیں معاف کر دے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ (2) یغفرلمن یشآء و یعذب من یشآئ…: اس میں ان اعراب کو توبہ کی اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی طرف پلٹ آنے کی ترغیب دی ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پیچھے بیٹھ رہنے سے توبہ کرلو، کیونکہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو معاف کرنے والا اور ان پر رحم کرنے والا ہے اور اس کی یہ صفت آج نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے۔ (3) ”یغفرلمن یشآء و یعذب من یشآئ“ کی تقسیم سے معلوم ہوا کہ پیچھے رہنے والوں میں سے کچھ ایسے ہوں گے جو نفاق سے توبہ کر کے اخلاص کی نعمت سے سرفراز ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت و رحمت سے فیض یاب ہوں گے اور کچھ ایسے بھی ہوں گے جو نفاق سے توبہ نہیں کریں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں عذاب دے گا۔ آگے آیت :(قل للمخلفین من الاعراب…) سے بھی یہ بات واضح ہو رہی ہے۔
Top