Al-Quran-al-Kareem - Al-Fath : 20
وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰذِهٖ وَ كَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْكُمْ١ۚ وَ لِتَكُوْنَ اٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَ یَهْدِیَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
وَعَدَكُمُ : وعدہ کیا تم سے اللّٰهُ : اللہ نے مَغَانِمَ كَثِيْرَةً : غنیمتیں کثرت سے تَاْخُذُوْنَهَا : تم لوگے انہیں فَعَجَّلَ : تو جلددیدی اس نے تمہیں لَكُمْ : تمہیں هٰذِهٖ : یہ وَكَفَّ : اور روک دئیے اَيْدِيَ النَّاسِ : ہاتھ لوگوں کے عَنْكُمْ ۚ : تم سے وَلِتَكُوْنَ اٰيَةً : اور تاکہ ہو ایک نشانی لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کیلئے وَيَهْدِيَكُمْ : اور وہ ہدایت دے تمہیں صِرَاطًا : ایک راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا جنھیں تم حاصل کرو گے، پھر اس نے تمہیں یہ جلدی عطا کردی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے اور تاکہ یہ ایمان والوں کے لیے ایک نشانی بنے اور (تاکہ) وہ تمہیں سیدھے راستے پر چلائے۔
(1) وعدکم اللہ مغانم کثیرۃ تاخذونھا : ان بہت سی غنیمتوں سے مراد صلح حدیبیہ، خیبر اور اس کے اردگرد کے علاقوں اور بستیوں کی فتح ہے، کیونکہ اس سے پہلے گزر چکا ہے :(سقول المخلقون اذا انطلقتم الی مغانم لتاخذوھا ذرونا تبعکم یریدون ان یبدلوا کلم اللہ ، قل لن تثبعونا کذلکم قال اللہ من قبل فسیقولون بل تحسدوننا، بل کانوا لایفقھون الا قلیلاً (الفتح : 15)”عنقریب پیچھے چھوڑ دیئے جانے والے لوگ کہیں گے جب تم کچھ غنیمتوں کی طرف چلو گے، تاکہ انہیں لے لو، ہمیں چھوڑو کہ ہم تمہارے ساتھ چلیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بدل دیں۔ کہہ دے تم ہمارے ساتھ کبھی نہیں جاؤ گے، اسی طرح اللہ نے پہلے سے کہہ دیا ہے۔ تو وہ ضرور کہیں گے بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو۔ بلکہ وہ نہیں سمجھتے تھے مگر بہت تھوڑا۔“ (2) فعجل لکم ھذہ : تو اس نے تمہیں ان غنیمتوں میں سے یہ صلح حدیبیہ جلدی عطا فرما دی جس میں تمہارے اور قریش کے درمیان معاہدہ ہوگیا کہ دس سال تک جنگ بند رہے گی اور سملمان آئندہ سال اسی ماہ آکر عمرہ ادا کریں گے۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں اور قریش کا ایک دوسرے کے پاس آنا جانا، ملنا جلنا شروع ہوگیا اور بیشمار لوگ مسلمان ہوئے، خیبر اور دوسرے علاقوں کی فتح کا دروازہ کھل گیا، غضر یہ صلح فتح بھی تھی اور اپنے بیشمار فوائد کے لحاظ سے غنیمت بھی۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد فتح خیبر لی ہے، یہ بھی ممکن ہے، مگر پہلی تفسیر زیادہ واضح ہے، کیونکہ یہ آیات حدیبیہ سے واپسی پر اتری ہیں۔ (3) وکف ایدی الناس عنکم : مسلمانوں سے لوگوں کے ہاتھ روک دینے میں مسلمانوں کی قلت کے باوجود قریش مکہ کو لڑائی سے روک دینا بھی شامل ہے اور خیبر اور دوسرے علاقوں کے یہود کو مدینہ پر حملہ آور ہونے سے روک دینا بھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ رعب تھا کہ جب مسلمانوں کی پوری جنگی قوت مدینہ سے باہر تھی، اگر اس وقت یہود اپنے حلیفوں اور منافقین کیساتھ مل کر مدینہ پر حملہ آور ہوتے تو ان کے لئے میدان خالی تھا، کیونکہ وہاں عورتوں، بچوں اور معذوروں کے سوا کوئی موجود نہ تھا، مگر یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ تھا کہ کسی کو یہ جرأت ہی نہیں ہونے دی۔ (4) ولتکون ایۃ للمومنین : اس جملے کا واؤ کے ساتھ مقدر جملے پر عطف ہے اور اسے مقدر اس لئے رکھا گیا ہے کہ وہ کئی جملوں میں سے کوئی ایک جملہ ہوسکتا ہے، مثلاً :”فعجل لکم ھذہ وکف ایدی الناس عنکم لتشکروہ ولتکون المعجلۃ و کف ایدی الناس عنکم ایۃ للمومنین“ ”یعنی اس نے یہ غنیمت تمہیں جلدی دے دی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے، تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو اور تاکہ جلد عطا کی جانے والی یہ غنیمت اور لوگوں کے ہاتھوں کا تم سے روک دیا جانا ایمان والوں کے لئے ایک نشانی بن جائے (کہ آئندہ بھی اللہ تعالیٰ اسی طرح ہماری مدد فرمائے گا۔)”لتشکروہ“ کے بجائے مقدر جملہ ”لیحصل لھم ال کسی نۃ“ یا ”لیزدادوا ایماناً“ وغیرہ بھی ہوسکتا ہے اور اسے حذف اسی لئے کیا گیا ہے کہ اگر ذکر کیا جاتا تو ایک آدھ بات ذکر ہوسکتی تھی، حالانکہ وہ بہت سی چیزیں ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ غنیمت پہلے عطا کردی۔ (5) ویھدیکم صراط مستقیماً : یہ جملہ بھی قرآن مجید کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے، کیونکہ اہل حدیبیہ میں سے کوئی ایک شخص بھی صراط مستقیم سے ادھر ادھر نہیں ہوا، بلکہ سب کے سب آخر دم تک اسلام پر قائم رہے۔
Top