Al-Quran-al-Kareem - Al-Fath : 21
وَّ اُخْرٰى لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَیْهَا قَدْ اَحَاطَ اللّٰهُ بِهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرًا
وَّاُخْرٰى : اور ایک اور (فتح) لَمْ تَقْدِرُوْا : تم نے قابو نہیں پایا عَلَيْهَا : اس پر قَدْ اَحَاطَ اللّٰهُ : گھیر رکھا ہے اللہ نے بِهَا ۭ : اس کو وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر قَدِيْرًا : قدرت رکھنے والا
اور کئی اور (غنیمتوں کا بھی) ، جن پر تم قادر نہیں ہوئے۔ یقینا اللہ نے ان کا احاطہ کر رکھا ہے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
(1) واخری لم تقدروا علیھا…:”اخری“ ”مغانم“ کی صفت ہے جو یہاں محذوف ہے اور اس کا عطف ”مغانم کثیرۃ“ پر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان غنیمتوں کے علاوہ جن کا اوپر ذکر ہوا، کئی اور غنیمتوں کا بھی وعدہ فرمایا ہے جن پر تم قادر نہیں ہوئے، مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں گھیرے میں لے لیا ہے۔ اس سے مراد سب سے پہلے فتح مکہ ہے جو فتح الفتوح تھی۔ مسلمان حدیبیہ والے سال اور اس سے اگلے سال اسے حاصل نہیں کرسکے مگر اللہ تعالیٰ کے علم میں اس کا فیصلہ ہوچکا تھا، چناچہ صلح حدیبیہ ہی اس کا پیش خیمہ بنی۔ اس صلح کی ایک شرط یہ تھی کہ جو قبیلہ چاہے مسلمانوں کا حلیف بن جائے اور جو چاہے قریش مکہ کا حلیف بن جائے اور کوئی کسی کے خلاف یا اس کے حلیف کے خلاف جنگ نہ کرے۔ اس موقع پر بنو خزاعہ رسول اللہ ﷺ کے حلفی اور بنو بکر قریش مکہ کے حلفی بن گئے۔ مشرکین صلح کے بعد صرف دو سال تک معاہدہ پر قائم رہے، پھر ان کے حلیف قبیلہ بنو بکر نے رسول اللہ ﷺ کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کردیا، جس میں قریش نے اسلحے اور آدمیوں کے ساتھ ان کی مدد کی اور کعبہ میں پناہ لینے کے باوجود انہیں قتل کیا۔ رسول اللہ ﷺ کو ان کے معاہدہ توڑنے کی اطلاع ملی تو آپ نے نہایت اخفا کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ مکہ کی طرف کوچ فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے مکہ فتح فرما دیا۔ لفظ عام ہونے کی وجہ سیف تح مکہ کے علاوہ وہ تمام فتوحات ”واخری لم تقدروا علیھا“ میں داخل ہیں جو اس کے بعد مسلمانوں کو حاصل ہوئیں، جن میں ثقیف و ہوازن کی فتح اور تبوک وغیرہ کی فتح بھی شامل ہیں۔ روم و فارس، مصر و شام ، ہندو سندھ اور زمین کے مشرق و مغرب کے وہ تمام ممالک بھی جو قیامت تک مسلمانوں کے قبضے میں آنے والے تھے۔ (2) قد احاط اللہ بھا، وکان اللہ علی کل شیء قدیراً : یہ اس سوال کا جواب ہے جو یہاں پیدا ہوسکتا تھا کہ مدینہ کی بستی کے یہ چودہ پندرہ سو آدمی، جن کے پاس اسلحہ اور دوسری ضروری ات حتیٰ کہ سامان خوردو نوش کی بھی کمی ہے، اتنی کثیر فتوحات اور غنیمتیں کیسے حاصل کرسکتے ہیں، جب کہ پورا عرب ان کے خلاف ہے، جن کے پاس آدمیوں، اسلحے اور ساز و سامان کی فراوانی ہے ؟ فرمایا یہ لوگ واقعی وہ فتوحات اور غنیمتیں حاصل نہیں کرسکتے، مگر جب اللہ تعالیٰ نے ان کا گھیرا کرلیا ہو اور انہیں مسلمانوں کو عطا فرمانا چاہتا ہو تو پھر کون ہے جو اسے روک سکے ؟ اور اللہ تعالیٰ تو ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے۔
Top