Al-Quran-al-Kareem - Al-Fath : 2
لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
لِّيَغْفِرَ : تاکہ بخشدے لَكَ اللّٰهُ : آپ کیلئے اللہ مَا تَقَدَّمَ : جو پہلے گزرے مِنْ : سے ذَنْۢبِكَ : آپکے ذنب (الزام) وَمَا تَاَخَّرَ : اور جو پیچھے ہوئے وَيُتِمَّ : اور وہ مکمل کردے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكَ : آپ پر وَيَهْدِيَكَ : اور آپ کی رہنمائی کرے صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
تاکہ اللہ تیرے لیے بخش دے تیرا کوئی گناہ جو پہلے ہوا اور جو پیچھے ہوا اور اپنی نعمت تجھ پر پوری کرے اور تجھے سیدھے راستے پر چلائے۔
(1) لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وما تاخر :”لیغفر“ کا لام ”لام عاقبت“ ہے، یعنی ہم نے آپ کو یہ فتح مبین عطا فرمائی تاکہ آپ کو اس کے نتیجے میں چار عظیم نعمتیں حاصل ہوں۔ گویا اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو فرما رہے ہیں کہ آپ نے اپنی رسالت کا حق ادا کیا، میرا پیغام پہنچایا، جان مار کر محنت کی، اپنی زبان اور تلوار کے ساتھ جہاد کیا، مسلمانوں کی ایک مخلص ترین جماعت تیار کی، سختی کے موقع پر سختی اور نرمی کے موقع پر نرمی کی اور مختصر سے عرصے میں وہ کامیابی حاصل کی جو طویل مدتوں میں کوئی حاصل نہ کرسکا، حتیٰ کہ وہ کام پورا کر دکھایا جو ہم نے آپ کے ذمے لگایا تھا۔ اب آپ اپنی محنت کا پھل اٹھائیں گے، جس سے دنیا اور آخرت میں آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، چناچہ ہم نے آپ کیلئے واضح فتح عطا کی جس کے نتیجے میں پہلی نعمت آپ کو یہ ملی کہ نبوت سے پہلے اور بعد کے گناہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخش دیئے۔ (2) یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ کیا نبی سے بھی گناہ کا صدور ہوسکتا ہے ؟ بعض حضرات نے انبیائے کرام (علیہم السلام) سے گناہ صادر ہونے کو ناممکن قرار دیا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک نبی سے گناہ کا صادر ہونا اس کی شان کے خلاف ہے، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ قرآن مجید نے آپ ﷺ کے متعلق لفظ ”ذنب“ استعمال کیا ہے، جس کا معروف و مشہور معنی ”گناہ“ ہے۔ اس لئے فارسی اور اردو تقریباً تمام مترجمین نے یہاں ”ذنب“ کا معنی گناہ کیا ہے۔ رہی یہ بات کہ آپ کی طرف لفظ گناہ کی نسبت سے آپ کی شان میں کمی کا اظہار ہوتا ہے، تو جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ انبیاء کے گناہوں کو اپنے گناہوں کی طرح سمجھ لیتے ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء ؑ کو جتنا عظیم اورب لند مرتبہ عطا فرمایا ہے اسے محلوظ رکھتے ہوئے وہ اپنی معمولی کوتاہیوں اور لغزشوں کو گناہ قرار دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی انہیں ”ذنوب“ کہہ کر ان سے استغفار کا حکم دیتا ہے، اسی لئے وہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں استغفار کرتے ہیں جس سے ان کا مرتبہ پہلے سے بھی بلند ہوجاتا ہے۔ مثلاً موسیٰ ؑ سے خطا کے ساتھ قبطی قتل ہوگیا تو انہوں نے دعا ک :(رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی فغفرلہ) (القصص :16) ”اے میرے رب ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، سو تو مجھے بخش دے، تو اللہ نے اسے بخش دیا۔“ آدم ؑ منع کرنے کے باوجود بھول کر اس پودے میں سے کھا بیٹھے تو کہا :(ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخسرین (الاعراف : 23)”اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہوجائیں گے۔“ تو اللہ تعالیٰ نے اس استغفار کے نتیجے میں انہیں ”مجتبی“ بنا لیا، فرمایا (ثم اجتبہ ربہ فتاب علیہ وھدی) (طہ : 122)”پھر اس کے رب نے اسے چن لیا، تو اس پر مہربانی فرمایء اور ہدایت دی۔“ یونس ؑ بغیر اجازت قوم کو چھوڑ کر چلے گئے تو مچھلی کے پیٹ سے اللہ تعالیٰ کو پکارا (لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین) (الانبیائ : 88)”تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، یقینا میں ظلم کرنے والوں سے ہوگیا ہوں۔“ اس استغافر کے نت یجے میں انہیں وہ مقام حاصل ہوا جو خطا نہ ہونے اور استغفار نہ کرنے کی صورت میں کبھی حاصل نہ ہوتا، فرمایا :(فاجتبہ ربہ فجعلہ من الصلحین) (القلم : 50) ”پھر اس کے رب نے اسے چن لیا ، پس اسے نیکوں میں شامل کردیا۔“ بنی آدم کا فرشتوں سے یہی فرق ہے کہ فرشتوں سے نہ خطا ہوتی ہے، نہ انہیں استغافر کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ وہ استغفار سے حاصل ہونے والا بلند مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ انبیائے کرام ؑ ہماری طرح کبیرہ گناہوں کا ارتکاب یا دیدہ و دانستہ فرمانی نہیں کرتے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے فرماں بردار بندے ہوتے ہیں، البتہ ان سے بشری تقاضوں کے پیش نظر کوئی معمولی کوتاہی یا اجتہادی خطا ہوجاتی ہے۔ انبیاء کی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس خطا یا کوتاہی پر قائم نہیں رہنے دیتا، بلکہ وحی کے ذریعے سے فوراً اصلاح فرما دیتا ہے، انبیاء کے معصوم ہونے کا یہی مطلب ہے۔ کسی امتیک و، خواہ وہ کتنے بلند منصب پر فائز ہو یہ امتیاز حاصل نہیں کہ اس کی خطا کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے سے اصلاح کی جائے۔ انبیاء سے سر زد ہونے والی یہ معمولی کوتاہیاں یا اجتہادی خطائیں بھی ان کے مقام کے پیش نظر خود انہیں اتنی بڑی نظر آتی ہیں کہ وہ بار بار اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ ہمارے نبی مکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ”ذنوب“ سے مغفرت مانگنے کا حکم دیا، جس پر عمل کرتے ہوئے آپ بےحد استغفار کرتے تھے۔ دیکھیے سورة محمد کی آیت (19) کی تفسیر۔ استغفار کی وہ مختلف دعائیں جو رسول اللہ ﷺ اللہ کی جناب میں کیا کرتے تھے ان تمام دعاؤں میں لفظ ”ذنب“ استعمال ہوا ہے۔ ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول کا معاملہ ہے کہ آپ ﷺ ذنوب کا اقرار کر کے استغفار کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ آپ ﷺ ک و پہلے اور پچھلے ذنوب کی مغفرت کی خوش خبری دے رہے ہیں۔ صحابہ کرام ؓ بھی اس بات کا حوالہ دیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے آپ کے پہلے اور پچھلے ذنوب معاف فرما دیے ہیں، جیسا کہ ام المومنین عائشہ ؓ ب یان کرتی ہیں۔ (ان نبی اللہ ﷺ کان یقوم من اللیل حتی تنفطر قدماہ فقالت عائشہ لم تصنع ھذا یا رسول اللہ وقد غفر اللہ لک ما تقدم من ذنبک وما تاخر ؟ قال افلا احب ان اکون عبداشکور ؟) (بخاری، التفسیر، باب قولہ :(لیغفرلک اللہ ماتقدم…):3838)”نبی ﷺ رات اتنا قیام کرتے حتیٰ کہ آپ کے قدم پھٹ جاتے تو عائشہ ؓ نے کہا :”یا رسول اللہ ! آپ اس طرح کیوں کرتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے آپ کے پہلے اور پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں ؟“ تو آپ ﷺ نے فرمایا :”تو کیا میں شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں ؟“ یہی وجہ ہے کہ پہلے تقریباً سبھی ترجمہ کرنے والوں نے ”ذنب“ کا معنی گناہ کیا ہے۔ یہ ترجمہ کرنے والے قرآن مجید کے سب خدام کیا نعوذ باللہ رسول اللہ ﷺ کے گستاخ اور رسول اللہ ﷺ کے مقام سے نا آشنا تھے ؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے تو رسول اللہ ﷺ گناہ گار ٹھہرتے ہیں۔ آپ ان حضرات سے پوچھیں کہ آپ ”ذنب“ کا ترجمہ کر کے بتائیے، ان میں سے ایک صاحب نے ”لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وما تاخر“ کا ترجمہ کیا ہے :”تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی اگلی پچھلی سب خطائیں معاف فرما دے۔“ ایک اور صاحب نے ترجمہ کیا ہے :”تاکہ اللہ تعالیٰ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے۔“ اپنے خیال میں ان حضرت ا نے نبی ﷺ کو گناہ گار ہونے سے تو بچا لیا مگر انہیں خطا کار اور کوتاہی کا مرتکب ہونے سے تو نہ بچا سکے، بتائیے آپ نے کون سامعر کہ سر کیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ ایک آدھ معمولی گناہ و خطا سے آدمی نہ گناہ و خطا سے آدمی نہ گناہگار کے لقب کا حق دار بنتا ہے اور نہ ہی اسے خطاکار یا کوتاہ کار کہہ سکتے ہیں۔ بعض حضرات نے یہاں ذنب کا معنی الزام کیا ہے اور ترجمہ کیا ہے :”تاکہ اللہ تعالیٰ آپ پر لگائے گئے پہلے پچھلے تمام الزامات دور کر دے۔“ ان حضرت ا سے کوئی پوچھے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی جن کاموں پر باز پرس فرمائی اور ساتھ ہی انہیں معاف کردینے کی بشارت بھی دے دی، کیا وہ سب الزامات تھے جو اللہ تعالیٰ نے غلط قرار دے کر دور فرما دیئے ؟ مثلاً فرمایا :(یا یھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک تبتغی مرضک ازواجک واللہ غفور رحیم) (التحریم : 1) ”اے نبی ! تو کیا حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لئے حلال کیا ہے ؟ تو اپنی بیویوں کی خوشی چاہتا ہے اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔“ اور فرمایا :(عفا اللہ عنک لم اذنت لھم حتی یتبین لک الذین صدقوا و تعلم اللذین) (التوبۃ : 33)”اللہ نے تجھے معاف کردیا، تو نے انہیں کیوں اجازت دی، یہاں تک کہ تیرے لئے وہ لوگ صاف ظاہر ہوجاتے جنہوں نے سچ کہا اور تو جھوٹوں کو جان لیتا۔“ اور فرمایا :(ما کان لنبی ان یکون لہ اسری حتی ینحن فی الارض تریدون عرض الدنیا ، واللہ یرید الاخرۃ ، واللہ عزیز حکیم) (الانفال :68)”کبھی کسی نبی کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں خوب خون بہا لے، تم دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت کو چاہتا ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔“ اور فرمایا :(وتخشی الناس، واللہ احق ان تخشہ) (الاحزاب :38)”اور تو لوگوں سے ڈرتا تھا، حالانکہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ تو اس سے ڈرے۔“ اصل بات یہ ہے کہ ایسے حضرات غلو کی وجہ سے ہر اس شخص کو گستاخ رسول قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں جو ان کی طرح نبی ﷺ کو خدائی صفات کا مالک قرار نہ دے، آپ کا عالم الغیب نہ مانے، مختار کل تسلیم نہ کرے، یا یہ نہ مانے کہ آپ ﷺ سے خطاب ہوس کتی ہی نہیں۔ ان میں سے بعض حضرات نے اس مقام پر ذنب کا معنی تو گناہ ہی کیا ہے، مگر اس آیت کے ترجمے میں تحریف قرآن کے اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا اس امت کو مہلت دینے کا فیصلہ نہ ہوتا تو ان کا نام و نشان مٹا دیا جاتا۔ چناچہ ان میں سے ایک صاحب نے ”لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وماتاخر“ کا ترجمہ کیا ہے :”تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے۔“ ایک اور صاحب نے ترجمہ کیا ہے، ”تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے۔“ ایک اور صاحب نے ترجمہ کیا ہے ”تاکہ آپ کی خاطر اللہ آپ کی امت (کے ان تمام افراد) کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے (جنہوں نے آپ کے حکم پر جہاد کئیا ور قبرانیاں دیں۔)“ ان لوگوں کی تحریف پر جرأت دیکھیے، لفظ ”ذنبک“ کا معنی ”تیرے گناہ“ کے علاوہ ہو نہیں سکتا، مگر یہ لوگ اس کا ترجمہ ”تیری امت کے اگلے پچھلے گناہ“ کر رہے ہیں اور حب رسول کے اتنے بڑے اجارہ دار بنے ہوئے ہیں کہ جو ان کی طرح تحریف نہ کرے، یا ان کی تحریف پر شاباش نہ کہے وہ ان کی نظر میں حب رسول سے آشنا ہی نہیں۔ ان لوگوں کے ترجمے کے مطابق تو تمام امتیوں کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہوچکے ہیں، اب اگر کوئی قتل یا زنا چوری کرتا ہے تو اس پر حد کیسی ؟ اسے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی مل چکی ہے۔ یہ سب نتیجہ اسی غلو کا ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ عمر بن خطاب ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا :(لاتطرونی کما اطرت النصاری ابن مریم فانما انا عبدہ، فقولوا عبداللہ و رسولہ) (بخاری احادیث، النبایئ، باب قول اللہ تعالیٰ :(واذکر فی الکتاب مریم /): 3335)”مجھے حد سے مت بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے مسیح ابن مریم کو حد سے بڑھا دیا، کیونکہ میں تو صرف اس کا بندہ ہوں، سو تم ”اللہ کا بندہ اور اس کا رسول“ کہو۔“ (3) اس مقام پر اکثر مفسرین نے نبی کریم ﷺ کے متعلق لفظ ذنب کی توجیہ کرتے ہوئے ایک جملہ مسلم قول کے طور پر ذکر فرمایا ہے :”حسنات الابرار سیئات المقربین“”نیک لوگوں کی نیکیاں مقرب لوگوں کی برائیاں ہوتی ہیں۔“ یہ جملہ اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول ﷺ کا تو ہرگز نہیں، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ بات کہنے والا کون ہے، مگر اکثر مفسر اور مصنف اسے اندھا دھند بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ نہ یہ سوچتے ہیں کہ نیکی بدی کیسے بن سکتی ہے اور نہ یہ خیال فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کے مطابق ابرار مقربین کی یہ تقسیم سرے سے غلط ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کون مقرب ہوگا ؟ اور آپ ﷺ پچھلی رات اٹھ کر جن آیات کی تلاوت کیا کرتے تھے ان میں مذکور دعاؤں میں سیا یک دعا یہ ہے :(وتوفنا مع الابرار) (آل عمران :193)”اور ہمیں ابرار کے ساتھ فوت کر۔“ پھر وہ کون سے ابرار ہیں جن کی نیکیاں مقربین کی بدیاں ہیں ؟ (4) ویتم نعمتہ علیک : یہ دوسری نعمت ہے جو صلح حدیبیہ کے نتیجے میں حاصل ہونے کی خوش خبری دی گئی۔ اس سے مراد وہ بہت سی نعمتیں عطا کرنا ہے جو اس سے پہلے آپ کو عطا نہیں کی گئی تھیں، مثلاً قریش، اہل مکہ اور دوسرے لوگوں کا فوج در فوج اسلام میں داخل ہونا، تمام دشمنوں اور مخالفوں کا زیر وہ اجنا، پورے ملک عرب کا آپ کے زیر نگیں ہوجانا اور دین کی تکمیل وغیرہ، جن کا اس موقع پر آپ ﷺ سے وعدہ کیا گیا اور کچھ ہی عرصہ بعد پورا کردیا گیا اور اعلان ہوگیا :(الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا) (المائدۃ : 3)”آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔“ (5) ویھدیک صراط مستقیماً : یہ تیسری نعمت کا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے احکام پر عمل، ان کی تبلیغ و جاد، سلطنت کے معاملات اور فتح و کامرانی کے حصول کے بارے میں آپ کو بالکل سیدھے راستے پر چلائے گا۔ اگرچہ یہ سب کچھ پہلے بھی آپ کو حاصل تھا، مگر اس کے بعد جس وسعت کے ساتھ حاصل ہوا وہ پہلے حاصل نہ تھا۔ مزید دیکھیے سورة فاتحہ کی آیت :(اھدنا الصراط مستقیم) کی تفسیر۔
Top