Al-Quran-al-Kareem - Al-Fath : 5
لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ یُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ١ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِیْمًاۙ
لِّيُدْخِلَ : تاکہ وہ داخل کرے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتِ : اور مومن عورتوں جَنّٰتٍ : جنت تَجْرِيْ : جاری ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : وہ ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : ان میں وَيُكَفِّرَ : اور دور کردے گا عَنْهُمْ : ان سے سَيِّاٰتِهِمْ ۭ : ان کی بُرائیاں وَكَانَ ذٰلِكَ : اور ہے یہ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک فَوْزًا : کامیابی عَظِيْمًا : بڑی
تاکہ وہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ان باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے سے نہریں چلتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے اور ان سے ان کی برائیاں دور کرے اور یہ ہمیشہ سے اللہ کے نزدیک بہت بڑی کامیابی ہے۔
(2) لیدخل المومنین : سب سے واضح اور صحیح بات یہی ہے کہ لیدخل کا لام ھوالذی انزل السکینۃ کے متعلق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی تاکہ وہ اپنے ایمان کے ساتھ ایمان میں اور زیادہ ہوجائیں اور تاکہ اس کی سکینت اور ایمان کی زیادتی کے ذریعے اللہ تعالیٰ مومن مردوں اور مومن عورتون کو ان باغوں میں داخل کرے جن کے تلے نہریں چلتی ہیں والمومنت : مومن عورتوں کا ذکر خاص طور پر یہاں اس لئے فرمایا کہ جہاد کا اجر صرف مردوں کے ساتھ خاص نہ سمجھ لیا جائے، کیونکہ مومن عورتیں بھی جہاد میں شریک ہوتی ہیں۔ وہ اپنے بھائیوں، خاوندوں، بیٹوں، باپوں اور دوسرے عزیزوں کے جہاد پر نکلنے میں رکاوٹ نہیں بنتیں، بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں، ان کی عدم موجودگی میں تنہائی اور دوسری پریشانیوں پر صبر کرتی ہیں اور ان کی شہادت کی صورت میں بیوہ ہونے اور بچوں کے یتیم ہونے پر صبر کرتی ہیں۔ ان میں سے کئی لشکر کے ساتھ جا کر کھانا پکانے، کپڑے دھونے، صفائی کرنے کی اور دوسری خدمات سر انجام دیتی ہیں۔ لڑائی کی صورت میں مجاہدوں کو پانی پلانے ، زخمیوں کی مرہم پٹی اور بیماریوں کی تیمار داری کا اہتمام کرتی ہیں۔ (ابن عاشور) (3) جنت تجری من تحتھا الانھر…: جنتوں میں داخل کرنے سے مراد یہاں خاص داخلہ ہے جو مجاہدین کے ساتھ خاص ہے ، وہ داخلہ نہیں جو محض ایمان اور عمل صالح کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے ساتھ ہی فرمایا :(ویکفر عنھم سیاتھم)”اور تاکہ وہ ان سے ان کی برائیاں دور کرے۔“ (ابن عاشور) ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(ان فی الجنۃ مائۃ درجۃ اعدھا اللہ للماجاھدین فی سبیل اللہ مابین الدر جتین کما بین السماء والارض فاذا سالتم اللہ فاسالوہ الفردوس فانہ اوسط الجنۃ و اعلی الجنۃ اراہ قال و فوقۃ عرش الرحمٰن۔ ومنہ تفجر انھار الجنۃ) (بخاری، الجھاد والسیر، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ :2890) ”جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ نے مجادین فی سبیل اللہ کیلئے تیار فرمائے ہیں، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے، تو جب تم اللہ تعالیٰ سے مانگو تو فردوس کا سوال کرو، کیونکہ وہ جنت کا افضل اور جنت کا اعلیٰ حصہ ہے۔ (یحییٰ بن صالح نے کہا) میں سمجھتا ہوں یوں کہا کہ اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔“
Top